کراچی: جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر خالد محمودعراقی نے کہا کہ عصر حاضر میں دیگرممالک سے تعلقات اوراپنی بات منوانے کے لئے معاشی طور پر مضبوطی ناگزیر ہے۔تاریخ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس سے سیکھنا بھی ضروری ہے۔انصاف اور برابری کی بنیاد پر قائم معاشرے ہی ترقی اور خوشحالی کے ضامن ہوتے ہیں۔ معاشرے میں اعتدال، مساوات اور عدل و انصاف کو قائم رکھنے کے لئے جن اصولوں، ضابطوں اور قوانین کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں نظر اندازکرنے سے معاشرے تنزلی کا شکارہوجاتے ہیں۔پاکستان اس وقت علاقائی روابط کے ذریعے اپنی معیشت کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان اور ہمارے ریاستی ادارے قابل تعریف اوردادوتحسین کے مستحق ہیں جن کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں اقتصادی محاذ پر حالیہ کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ بین الاقوامی سیاسی بحران کے اس نازک موڑ پر شنگھائی سربراہی اجلاس پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے جس کی میزبانی اسلام آباد میں علاقائی اتحادیوں بشمول چین اور روس کی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے شعبہ تاریخ جامعہ کراچی کے زیر اہتمام اور انسٹی ٹیوٹ آف سینٹرل اینڈ ویسٹ ایشین اسٹڈیزکے اشتراک سے ڈاکٹر اے کیوخان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ جامعہ کراچی کی سماعت گاہ میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان: ”بدلتی ہوئی دنیا میں وسطی ایشیاء“کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر خالد عراقی نے انسٹی ٹیوٹ آف سینٹرل اینڈ ویسٹ ایشین اسٹڈیز اور شعبہ تاریخ کے اشتراک سے منعقد ہونے والی کانفرنس کو سراہتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جامعہ کراچی پاکستان کے معاشی بحالی کے ایجنڈے پر حکومت اور ریاستی اداروں کے شانہ بہ شانہ کام کرے گی۔ اس کانفرنس کا انعقاد جامعہ کی ماضی کی روایات کا ایک تسلسل ہے۔ انہوں نے علاقائی تعاون کی تنظیم سازی پہ زور دیتے ہوئے اسکو وقت کی اہم ضرورت قراردیا۔
معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ پاکستان میں سینٹرل ایشیاء کی دلچسپی رہی ہے اور اب تک ہے،معیشت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اوردوملکوں کے درمیان جورشتے ہوتے ہیں اس کا بھی کوئی مذہب نہیں ہوتا۔یہ سب کچھ قومی اور معاشی مفادات سے متعلق ہوتاہے۔ہمارے اذہان میں یہ جو دھواں ہے کہ یہ جومسلمان ہیں وہ ہمارے دوست ہوں گے یہ ہمیں نکالنے کی ضرورت ہے۔افغانستان بھی مسلم ملک ہے،پاکستان کی توقع یہ تھی کہ افغانستا ن میں مسلمانوں کی حکومت کے قیام سے ہمارے دوست ہوں گے اور تعلقات مزید بہتر ہوں گے لیکن آج ہمیں انڈیاسے زیادہ افغانستان تنگ کررہاہے۔اس بات کو ہمیں بھول جاناچاہیئے کہ سینٹر ل ایشیاء مسلمان ہے توہمارے تعلقات ہوں گے۔سینٹرل میں ایشیاء میں اس طرح کے کوئی خیالات نہیں،وہ پاکستان سے مسلمان ہونے کی وجہ سے دوستی نہیں کرناچاہیں گے بلکہ سب کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ ملک کے اند رہم جتنی مرضی اسلامی نظام قائم کرنے کی کوشش کریں لیکن ملک کے باہر ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ معاشی تعلقات کن بنیادوں اوراسٹریٹیجک تعلقات کن بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ہمیں اپنے تعلیمی معیار کوبڑھانے کی ضرورت ہے اور یہ ریاست ہی کرسکتی ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرزکی اعزازی سیکریٹری پروفیسرڈاکٹر تنویر خالد نے کہا کہ چین اپنی اقتصادی ترقی اور توسیع میں بنیادی طور پر عالمی سطح پر سب سے زیادہ بااثر ہے۔ اس کی کامیابی کا انحصار بیرون ملک منڈیوں اور وسائل تک اس کی رسائی پر ہے۔ وسطی ایشیا سمیت ترقی پذیر دنیا کے کئی حصوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا مطلب یہ ہے کہ اس کا خطے میں بڑھتا ہوا سیاسی فائدہ ہے۔چین، روس، ایران، افغانستان، بھارت اور پاکستان سیکورٹی اور اقتصادی مسائل میں اہم کھلاڑی ہیں جو وسطی ایشیا کے مستقبل کا تعین کریں گے۔
معروف تاریخ دان اور پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی کے سابق ڈائریکٹر پروفیسرڈاکٹر جعفراحمد نے کہا کہ پاکستان کے تعلقات کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے، پہلے برصغیر پاک و ہند کے ایک حصے کے طور پر، اور بعد میں ایک آزاد ملک کے طور پر، وسطی ایشیا کے خطے کے ساتھ۔ ان تاریخی رشتوں کو بدقسمتی سے قرون وسطیٰ کے دور میں برصغیر پر ہونے والے حملوں کے واقعات اور نتائج کے طور پر شناخت کیا گیا۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے مزیدکہا کہ ایریا اسٹڈی سینٹر فار سینٹرل ایشیا جو پشاور یونیورسٹی میں واقع ہے۔ اس کا سہرا سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے جن کے ادارہ سازی کے جذبے سے ان کے سیاسی مخالفین بھی انکار نہیں کر سکتے۔ نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے علاوہ ان کے دور میں ملک بھر میں متعدد تحقیقی ادارے اور مراکز قائم ہوئے۔ بڑے اور چھوٹے شہروں میں قومی مراکز، کراچی میں قائداعظم اکیڈمی، دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستان چیئرز، پانچ یونیورسٹیوں میں پاکستان اسٹڈی سینٹرز اور ایک قومی ادارہ قائم کیا۔
رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ وسطی ایشیاء تین طاقتوں کے مابین تعاون اور مسابقت کا مرکز ہے۔چین اور روس کے مابین امریکہ کو روکنے کے لئے اشتراک توبہت نظرآتاہے لیکن ان میں مسابقت بھی ہے اور بالخصوص توانائی کے شعبہ میں،امریکہ یہ سمجھتاہے کہ روس کو کمزورکرنے کے لئے وسطی ایشیاء بہترین طریقہ ہے۔اس وقت عالمی طاقتوں کاسب سے بڑامسئلہ توانائی کا حصول ہے اور وہ اس خطے سے زیادہ سے زیادہ توانائی کا حصول چاہتے ہیں جس کی بڑی وجہ ان خطوں کا تاحال سیاسی اور عسکری طور پر کم مضبوط ہوناہے۔
شعبہ تاریخ جامعہ کراچی کی ڈاکٹر حنا خان نے کہا کہ وسطی ایشیا وہ دے سکتا ہے جو دنیا چاہتی ہے بشرطیکہ اسے متضاد مفادات کا میدان نہ بنایا جائے۔خطے کی عوام کا مفاد سب سے مقدم ہونا چاہیئے۔جمہوریت، تکثیریت اور شفافیت کے ذریعے ان مفادات میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔اکیسویں صدی کی تیسری دہائی، جب یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے بحران بین الاقوامی توجہ پر حاوی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وسطی ایشیا بین الاقوامی سیاست کی پشت پر کھڑا ہے۔ نائن الیون نے خطے کو ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے گڑھ کے طور پر روشناس کرایا جس نے افغانستان میں پہلی طالبان حکومت کے خلاف نیٹو افواج کو فوجی اور فضائی اڈے فراہم کئے تھے۔
کانفرنس سے انسٹی ٹیوٹ آف سینٹرل اینڈ ویسٹ ایشین اسٹڈیز کی جنرل سیکریٹری پروفیسرڈاکٹر نسرین افضال نے بھی خطاب کیا۔کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں نظامت کے فرائض شعبہ تاریخ کے ڈاکٹر معیزخان نے انجام دیئے جبکہ کلمات تشکر شعبہ تاریخ جامعہ کراچی کے صدرشعبہ پروفیسرڈاکٹر ایس ایم طحہٰ نے اداکئے۔