رشید صابر کا جنم 10جنوری1945 میں موجودہ ضلع سجاول کے تعلقے جاتی میں ہوا۔ والد نے ان کا نام عبدالرشید ولد عبداللہ میندرو رکھا۔رشید صابر کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا۔ آپ کے گھرانے میں جید عالم پیدا ہوئے ہیں۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے "الفیض”سے حاصل کی، آپ نے فقہ اور حدیث سے فیض یاب ہونے کے بعد حیدرآباد میں واقع اورنٹیل کالج سے ادیب فاضل (مولوی فاضل) کی سند حاصل کی اور نور محمد ہائی اسکول میں عربی کے استاد مقرر ہوئے اسی دوران BAاور پھر MA کی ڈگری سندھ یونیورسٹی سے حاصل کی آپ سندھی کے علاوہ اردو، عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ رشید صابر صاحب کے دو عدد کتاب جو کہ اسلامک اسٹڈیز پرلکھے گئے ہیں بی اے اور ایم اے کے تدریسی کو رسز میں شامل ہیں آپ نے کتاب "صفاالضمائر” کا سندھی میں ترجمہ ماٹیوتن ملیر کے نام سے کیا ہے۔
اس کے علاوہ آپ کی پہلی کتاب ”مولوی عبدالرشید میندرو سے لے کر رشید صابر تک“جس میں آپکی زندگی پر مختلف شخصیات کے تاثرات، دوسری کتاب ”رشید صابر جا چونڈ ریڈیو ڈرامہ“اس کتاب میں آپ کے منفرد اور مشہور ریڈیو ڈرامے شائع کیئے گئے۔اور تیسری کتاب ”رشید صابر جا ٹی وی ڈرامہ“جو اب شائع ہوئی ہے۔
1965کی پاک بھارت جنگ کے بعد جب جنگی قیدیوں کی واپسی شروع ہوئی تو آپ نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد کیلئے یادگار ڈرامہ ”نیت پھٹنڈی باکھ“تحریر کیا آپ نے ریڈیو کیلئے تقریباً 300کے قریب ڈرامے تحریر کئے ہیں جن میں ہر قسم کے موضوعات شامل ہیں اسکے علاوہ لاتعداد ڈاکو مینٹریز،مذہبی پروگرامز، خاکے اور تقاریر تحریر کیں مذاحیہ ریڈیو پروگرام "گلدستو ” کا اسکرپٹ بھی آپ ہی تحریر کرتے تھے رشید صابر نے ریڈیو پاکستان کی جانب سے سال 2001-2002کا بہترین رائٹر کا ایوارڈ بھی حاصل کیا ہے۔ان کے انتقال کے بعد 2مرتبہ ریڈیو پاکستان کراچی کی طرف سے صدارتی ایوارڈ کیلئے نامینیٹ کیا گیا ہے۔
ریڈیو میں جن پروڈیوسروں کے ساتھ کام کیا اُن میں سید منظور نقوی نصیر مرزا، شیخ ابراہیم، ارشاد اعوان، ممتاز اعوان، نصیر سومرو، نثار میمن، کوثر بڑرو، گل حسن قریشی، جہانگیر قریشی، ممتاز شیخ آغا محمد علی، خلیل چنا اور نوراللہ بگھیو قابل ذکر ہیں۔
پی ٹی وی پر آپ نے معلومات عامہ کا پروگرام ”وینجھار اور پرکھ“کیلئے سوال جواب تحریر کرتے رہے۔اسکے علاوہ آپ نے دستاویزی پروگرام ”واء سواء“ ”حال احوال“اور ”ناٹک رنگ“کیلئے بہت سے ڈرامے بھی تحریر کئے پی ٹی وی پر آپ نے اعجاز علیم عقیلی، بیدل مسرور، محمد بخش سمیجو، ہارون رند، ذوالفقار نقوی، سمیع بلوچ، منظور قریشی، منظور مگسی، اقبال سعید انصاری، فیض بگھیو، اقبال احمد، بادل جمالی،نعیم بلوچ،حسین خانزادہ، مقبول شجراع،ہارون جمالی، فدا سومرو، الطاف سومرو اور سلطانہ صدیقی کے ساتھ کام کیا۔KTNاور سندھ ٹی وی سے بھی کئی ڈرامے نشر ہوئے ہیں KTNپر نور جوکھیو جبکہ سندھ ٹی وی پر ڈاکٹر عبدالکریم راجپر کے ساتھ کام کیا۔آپ نے پرائیویٹ چینل کیلئے جو ڈرامے تحریر کیئے اس میں ”ساحل سے دور“اس ڈرامے کی ڈائریکشن پہلی مرتبہ اداکار طلعت حسین نے دی،اور میرا کیا قصور،زندگی کا زہر، چودہویں کی رات TV One،آئینہ اور دیگر ڈرامے شامل ہیں۔
1979میں کراچی اسٹیج کیلئے سندھی ناٹک "فلور نمبرون "سے بنیاد ڈالی اور کافی تعداد میں اسٹیج ڈرامے تحریر کیئے،ان اسٹیج ڈراموں میں ”جانے نہ پائے“، ”ایک انار دو بیمار“،”گھوٹ ان موٹ“،”قرض مرض فرض“،آڈی پچھا“،”شادی یا تعدی“،”شادی شان واری“،”دلگیر دامن گیر“، ”مکس پلیٹ“،”کھٹی آیو خیر سان“، ”شادی یا بربادی“ شامل ہیں۔سندھی فلموں کی ترقی کیلئے بھی آپ نے اپنا مثبت کردار اداکیا۔1984ء میں صدرِ مملکت ضیاء الحق کی طرف سے بلائے گئے فلمی اجلاس میں سندھی فلموں کی نمائندگی کی اور سندھی فلموں کا ٹیکس معاف کروایا۔آپ کی سندھی فلموں میں ”گھاتو گھر نہ آیا“ طوفان، پھل ماچھی،برسات جی رات، سہنا سائیں،ہو جمالو، قیدی،مہران جاموتی اور اردو فلم آخری گولی کی کہانیاں بھی آپ نے تحریر کیں اور اس میں اداکاری بھی کی۔رشید صابر نے نہ صرف اپنی تحریروں کے ذریعے بلکہ صداکاری، اداکاری، اور ہدایتکاری میں بھی منفرد مقام رکھتے ہیں آپ کو کئی نجی ادارں کی جانب سے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔