کونسا ٹورسٹ یہاں آئے گا؟

الطاف شیخ

تھائی لینڈ کا شہر کنچن بوری اور بینکاک کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ لاڑکانہ اور کراچی کے درمیان ہے۔ ایک مرتبہ مجھے جہازرانی کے حوالے سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے بینکاک جانا پڑا تھا۔ اس دوران اپنے ایک دوست سے ملنے کے لیے، صبح کی پرواز سے ’کنچن بوری‘ شہر چلا گیا۔ میں اس شہر میں پہلی بار جا رہا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ پرواز کے دوران جہاز میں کسی مسافر سے، اس شہر کے متعلق معلومات حاصل کرلوں گا۔ لیکن جہاز میں سوار ہونے کے بعد جب میں نے ارد گرد نظر دوڑائی تو مجھے وہاں یورپی، جاپانی اور دیگر ملکوں کے ٹورسٹ ہی نظر آئے۔ شاید کسی گوشے میں اس شہر یا صوبے سے تعلق رکھنے والا کوئی مسافر بھی موجود ہوگا۔ لیکن ظاہری طور پر غیر ملکی سیاح ہی موجود تھے، جو دوسری جنگ عظیم کا تاریخی پل دیکھنے کے لیے کنچن بوری جا رہے تھے۔ 1952ءمیں فرنچ مصنف پائری بولی (Pierre Boulle) نے اس پل پر The Bridge on River Kawai نامی ایک ناول لکھا تھا اور 1957ء میں ڈائریکٹر ڈیوڈ لین نے اسی نام سے فلم بنائی تھی۔ یہ دنیا کی مشہور فلموں میں سے ایک ہے۔

بہرحال تھائی لینڈ کے شہر ”کنچن بوری“ روانہ ہونے کے وقت مجھے احساس ہوا کہ وہاں کے مقامی لوگ جہاز کے بجائے بس یا ٹرین کے ذریعے وہاں جاتے ہیں_ اور اب لاڑکانہ بائی ایئر جانے کا پروگرام بنا کر میں یہی سوچتا رہا کہ اس فلائٹ میں میرے ہم سفر یقینا غیر ملکی ٹورسٹ ہوں گے، جو ”موہن جو دڑو“ دیکھنے جا رہے ہوں گے۔ ظاہر ہے موہن جودڑو ”دریائے کوائی“ پر تعمیر شدہ پل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کنچن بوری والی پرواز میں میرے قریب بیٹھے ہوئے فرنچ جوڑے نے بتایا تھا کہ جب انہوں نے وہ فلم دیکھی تھی، تو اسی وقت سے ان کے دل میں یہ خواہش شدت سے پیدا ہوئی تھی کہ وہ زندگی میں ایک مرتبہ یہ پل ضرور دیکھیں گے۔
اس حساب سے دیکھا جائے تو نہ جانے کتنے لوگوں کے دلوں میں موہن جو دڑو دیکھنے کی خواہش انگڑائی لیتی ہو گی۔ بینکاک سے روزانہ ایک پرواز کنچن بوری کے لیے روانہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہفتے میں تین پروازیں تھائی لینڈ کے دیگر شہروں، پتایا، چنگ مائی اور سونگکلا سے سیاحوں کو اٹھا کر کنچن بوری پہنچتی ہیں۔ لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ موہن جو دڑو کے لیے کراچی سے ہفتے میں صرف ایک پرواز کیوں کافی سمجھی گئی ہے۔ وہ غیر ملکی ٹورسٹ جو لاہور، پشاور، گلگت اور کوئٹہ جیسے شہروں میں آتے ہیں، وہ معلوم نہیں موہن جودڑو کیسے پہنچتے ہوں گے۔ حالانکہ موہن جودڑو ایک ایسی تاریخی چیز ہے، جسے دیکھنے کے لیے سیاحوں کو اس طرح ہجوم در ہجوم آنا چاہیے، جیسے مختلف ملکوں کے ٹورسٹ تاج محل دیکھنے کے لیے آگرہ پہنچتے ہیں۔ جیسے تخت جمشید دیکھنے کے لیے فارس صوبے کے شہر شیراز آتے ہیں…. جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے قدموں کے نشان (سری ادا) دیکھنے کے لیے سری لنکا کے دور دراز کے قصبے ”رتناپور“ پہنچتے ہیں۔

بہرحال گھر سے روانہ ہونے کے وقت مجھے احساس تھا کہ آج میں اپنے صوبے کے ایک شہر سے دوسرے شہر کی جانب پہلی مرتبہ سفر کروں گا، جو بالکل مختصر دورانیے کا سفر ہو گا…. ایک گھنٹے سے بھی کم! اس سفر میں مجھے غیر ملکی سیاحوں سے ملنے اور ان سے موہن جودڑو کے متعلق رائے حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔
میری فلائٹ پانچ بجے تھے۔ ڈومیسٹک فلائٹ ہونے کے سبب مجھے یہی بتایا گیا کہ میرا ایک گھنٹا پہلے آنا کافی ہو گا۔ لیکن کراچی کے حالات کا کچھ بھروسہ نہیں۔ اس کے علاوہ CNG کی بندش کے باعث ٹیکسی کے ملنے کی امید بھی کم تھی، لہٰذا میں احتیاطاً دو بجے ہی گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ ایئر پورٹ میں داخل ہو کر میں نے یونیفارم میں ملبوس ایک شخص سے پوچھا کہ لاڑکانہ جانے کے لیے پی آئی اے کے کون سے کاﺅنٹر سے بورڈ کارڈ ملے گا؟ اس نے جس کاﺅنٹر کی جانب اشارہ کیا، اس پر فیصل آباد کی پرواز کی نیوئن لائٹس روشن تھیں۔ لیکن میں نے جب موہن جودڑو کا ٹکٹ آگے بڑھایا تو کمپیوٹر کے عقب میں بیٹھی لڑکی اسے قبول کر کے میرے لیے بورڈنگ کارڈ بنانے لگی۔ اس کے قریب کھڑی لڑکی نے مجھے اپنا سامان رولر پر رکھنے کی ہدایت کی۔ 13 کلو وزن دیکھ کر مجھے افسوس ہوا۔ گھر پر ہی معلوم ہو جاتا تو میں اس سامان کو کسی چھوٹے بیگ یا تھیلی میں ڈال کر چلتا۔ اس طرح میں اسے اپنے ساتھ جہاز میں لے جا سکتا تھا اور سامان کے گم ہونے کی فکر سے آزاد ہوتا۔ جس طرح خط استوا سے قطبین کے مقام پر ہر چیز کا وزن بڑھ جاتا ہے، اسی طرح جب انسان ستر برس کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے 13 کلو وزن بھی 30 کلو محسوس ہوتا ہے۔
میں نے انچارج لڑکی سے کہا کہ وہ میرے بیگ پر ’موہن جودڑو ایئر پورٹ‘ کا اسٹیکر ضرور لگائے۔ گزشتہ دو PIA کی پروازوں میں میرا سامان گم ہو چکا ہے۔
میں سمجھا کہ وہ میرے ڈانٹنے کے سے انداز کا بُرا منائے گی، لیکن معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے ”پیا “ (PIA) کے لچھن سے آگاہ تھی۔ ٹکٹ بنانے والی لڑکی نے گویا مجھ پر رحم کھاتے ہوئے اپنی ساتھی سے کہا کہ وہ میرے بیگ پر ”وہ“ اسپیشل اسٹیکر لگا دے۔ لیکن اس نے ”وہ“ اسٹیکر لگانے کے بجائے رازدارانہ انداز میں مجھ سے کہا۔

”سر! ایسا کرنے سے بیگ چوری ہونے کے چانس بڑھ جائیں گے۔“
”ہیں…. وہ کیسے؟“ میں اس کی بات سن کر حیران رہ گیا تھا۔
”وہ ایسے کہ ایئر پورٹ کے چور سمجھیں گے اس میں کوئی خاص اور قیمتی مال ہے۔“
بورڈنگ کارڈ لے کر میں انتظارگاہ کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ بیگ چوری ہونے کا واقعہ بھی میرے ہی ساتھ پیش آتا ہے۔ خدا کرے کہ اس مرتبہ ایسا نہ ہو۔ اس وقت لاڑکانہ میں سخت سردی تھی۔ گرم کپڑوں کے بغیر گزارا کیسے ہو گا! انتظارگاہ میں بیٹھنے کے لیے کوئی خالی کرسی تو کیا کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ میں لوگوں سے پوچھتا ہوا اس جگہ جا کر کھڑا ہوا جہاں موہن جودڑو جانے والے دوسرے مسافر موجود تھے۔ وہ تقریباً تمام لوگ سندھی ٹوپی اور پگڑیوں میں تھے۔ سب ایک دوسرے سے بلوچی اور سرائیکی میں گفتگو کررہے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ سب جدہ سے گزشتہ رات یہاں پہنچے ہیں۔ ان کی پرواز صبح گیارہ بجے تھی، جو اب تک Postpone ہوئے چلی جا رہی تھی۔ اسی طرح PIA کی دوسرے شہروں کی پروازیں کینسل ہو رہی تھیں۔ لوگ اس قدر مشتعل تھے کہ جب کوئی اکا دکا پرواز روانہ ہو رہی تھی تو وہاں موجود دوسرے شہروں کے مسافر پی آئی اے کے خلاف نعرے بازی کرنے لگے۔ میں نے سوچا کہ اگر موہن جودڑو کی پرواز روانہ بھی ہوئی تو پہلے ان جدہ سے آنے والے مسافروں کو بٹھایا جائے گا۔ وقت گزرتا رہا۔ پانچ بج گئے۔ لیکن موہن جودڑو کی پرواز کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔
ساڑھے پانچ بجے میرے کیڈٹ کالج پٹارو کے کلاس میٹ دوست شوکت جمانی نظر آئے۔ انہیں اسی پرواز سے سکھر جانا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ”پتا نہیں چلتا کب سکھر کے لیے الگ اور موہن جودڑو کے لیے الگ جہاز ہوتا ہے۔ کبھی ایک ہی جہاز ہوتا ہے، کبھی چھوٹا ہوتا ہے تو کبھی بڑا۔“
بہرحال رات کے نو بجے ہماری پرواز کا اعلان ہوا۔ سکھر اور موہن جودڑو کے لیے ایک ہی جہاز تھا۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ جہاز میں سب دیسی لوگ تھے۔ وہاں موہن جودڑو دیکھنے والا کوئی گورا نہیں تھا۔ شوکت نے کہا کہ بہتر یہی ہے میں اس کے ساتھ سکھر اتر جاﺅں۔ ان کے بقول لاڑکانہ میں کوئی ڈھنگ کا ہوٹل ہے ہی نہیں اور سندھ کے لاء اینڈ آرڈر سے سب ہی واقف ہیں۔

چھوٹا جہاز مسافروں کے درد سر میں اضافہ کرتا، سوا گھنٹے کے بعد سکھر پہنچا۔ کافی مسافر سکھر اتر گئے۔ باقی ہم سات افراد بچے تھے، جنہیں جہاز نے نصف گھنٹے کے بعد موہن جودڑو ایئر پورٹ پر لا پھینکا۔ بجلی غائب تھی۔ جنریٹر کے زور پر ایئر پورٹ کی ٹمٹماتی روشنی میں باہر آیا تو مجھے ہر طرف گہری تاریکی نظر آئی۔ ایسے میں کیڈٹ کالج لاڑکانہ کی گاڑی آکر میرے سامنے رکی۔ وہ میرے میزبان تھے۔ میں نے دل میں سوچا کہ ہمارے ٹورزم ڈپارٹمنٹ کی بڑی خواہش ہے کہ غیر ملکی ٹورزم کے لیے سندھ میں آئیں۔ حالت یہ ہے کہ حاکموں کے شہر لاڑکانہ پہنچنے کے لیے ہم دیسی لوگ ہی بے حال ہو جاتے ہیں، سو یورپ اور امریکا کے گورے یہاں آکر کیوں خوار ہوں!
Altaf Shaikh is a famous Scholar, Visiting Professor, a Travelogue Writer and a well known Marine Engineer.
Born in 1944, Altaf Shaikh got his early education from Hala New, then from Cadet College Petaro. He studied Marine Engineering at Marine Academy Chittagong, East Pakistan (now Bangladesh ) and did post graduation from the World Maritime University, Malmo, Sweden.
After sailing as Chief Engineer on various types of ships for some 15 years, he served Malaysian and then Pakistan Marine Academy as Head of Marine Engineering Department for some 20 years. He is an author of more than 100 books … mostly travelogues in Sindhi and in Urdu. He is also a regular columnist of daily newspapers of Pakistan, Malaysia & Japan.
Besides other awards, he is recipient of Presidential Award T.I (Tumgha e Imtiaz) of Pakistan and PJK (Pingat Jasa Kebaktian) a Malaysian Award. Also Best Book of the Year from Pakistan Writers Guild & Pakistan Academy of Letters, Islamabad.

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں