
ٹائٹینک بنانے والی کمپنی کے مالک Joseph Bruce Ismay جب جھاز ڈوب رہا تھا تو بچے اور خواتین زوردار آواز سے چیخ رہیں تھیں تب ایک شخص کشتی میں چڑھ کر وہاں سے جان بچاکر نکلے تھے جو باقی ساری عمر اس تباہی پر سوچ سوچ کر مرگئے اور اس کی اس بزدلی پر دنیا کا ھر فرد اس سے نفرت کرتا رہا۔

دوسری طرف جھاز کے کپتان ایڈ ورڈ جان سمتھ تھے جنہوں نے مسافروں کی جان بچاتے بچاتے لائف بوٹ میں سب سے آخر میں چڑھنے کی کوشش کی تو لائف بوٹ والے نے اس کپتان سے کہا کہ اب گنجائش نہیں اگر آپ اس بوٹ پر سوار ہونگے تو سب مسافر ڈوب جائینگے!
ٹائٹینک کے کپتان پیچھے ھٹے اور سمندر کی لہروں میں ہمیشہ کے لئے گم ہوگئے جسے انسانیت کو بچانے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا مجسمہ سٹیفورڈ میں نصب کیا گیا، اور آج بھی اس کی جرئت اور بھادری کو سلام کیا جاتا ہے۔

جب ٹائٹینک مکمل تیار کرکے سمندر میں لایا گیا تو اس کے مالک نے تکبر سے کہا تھا ٹائیٹنک کو ایسے جدید طریقے سے بنایا گیا ہے جو طوفان نوح تو کیا خدا بھی اسے ڈبو نہیں سکتا۔ نعوذ باللہ

تکبر میں ٹائٹینک دو گھنٹے چالیس منٹ میں سمندر میں غرق ہو گیا، مگر جب اللہ پاک کا نام لیکر کمزور تختوں والی کشتی سمندر میں اتاری جاتی ہے تو پار لگ جاتی ہے۔ بزدلی، بھادری، تکبر اور عاجزی دو کہانیاں چھوڑ گئی ہیں۔
ٹائیٹنک ہمیشہ سمندر کے تہہ میں سورہا ہے اور اس کی باتیں 111 سال کے بعد بھی گونج رہی ہیں۔