کراچی: ہمدرد فائونڈیشن پاکستان اور ہمدرد پبلک اسکول کے زیر اہتمام عالمی ادارہ صحت کی تھیم ’’صحت مند آغاز، پُرامید مستقبل‘‘ پر گزشتہ روز ۳۳ویں عالمی چلڈرنز ہیلتھ کانفرنس آن لائن منعقد ہوئی۔ہمدرد فائونڈیشن پاکستان کی صدر سعدیہ راشد،کانفرنس کے صدر عالمی ادارہ صحت سندھ آفس کے سربراہ ڈاکٹر مختیار حسین بھایو، مہمان خصوصی معروف سرجن پروفیسر ڈاکٹر زریاب سیتنا،ہمدرد پاکستان کی منیجنگ ڈائریکٹر /سی ای او فاطمہ منیر احمد، عالمی ادارہ صحت کے نمائندے بدر منیر اور ڈائریکٹر ہمدرد فائونڈیشن پاکستان سید محمد ارسلان سمیت دیگر معزز مہمانوں نے ہمدرد کارپوریٹ ہیڈ آفس سے کانفرنس کی کارروائی میں شرکت کی۔امریکا، روس، آسٹریلیا، ملائیشیا اور ایران سمیت پاکستان کے مختلف شہروں سے نونہال مندوبین اور عالمی ادارہ صحت کے دیگر صوبائی سربراہان بہ ذریعہ ’’زوم‘‘ شریک ہوئے اور اپنے خیالات کا اظہارکیا۔
افتتاحی کلمات میں سعدیہ راشد نے کہاکہ اگلی نسلوں کی صحت اور بہبود کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کانفرنس کے انعقاد کے ذریعے ہمدرد فائونڈیشن پاکستان گزشتہ تین دہائیوں سے عوام الناس میں بچوں کی صحت کی اہمیت و افادیت اُجاگر کرنے کی سعی میں مصروف عمل ہے۔اس سال کے موضوع کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں مشترکہ طور پر جدوجہد کرنا ہوگی تاکہ ماں، بچوں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک صحت مند ماحول تخلیق کرنے کے لیے ضروری وسائل فراہم کیے جا سکیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں زچگی کے دوران اور بچوںکی دوران پیدائش یا ایک ماہ کے اندر اموات کے بڑھتے اعداد و شمار متقاضی ہے کہ ہم فوراً کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں۔یہ لمحہ فکریہ ہے کہ پوری دنیا میں ہر سال ہزاروں خواتین زچگی اور حمل کی پیچیدگیوں کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، جبکہ ایک ملین سے زائدنومولودبچے یا تو پیدائش کے وقت یا پھر پہلے ماہ کے اندروفات پاجاتے ہیں۔ اموات کی اس شرح پر بروقت طبی معاونت،سہولیات کی فراہمی اور اجتماعی کوششوں سے قابو پایا جاسکتا ہے تاہم اس ضمن میں ہمیں فوری طور پر فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔مضبوط اور پائیدار تبدیلی کے لیے تمام حصول یافتگان کی مشترکہ کاوشیں ضروری ہیں۔
ڈاکٹر مختیار حسین بھایو نے کہاکہ ہمدرد پاکستان کا ۳۳ سالوں سے مسلسل عالمی یوم صحت کو منانے کا عزم لائق تحسین ہے۔ یہ ہمدرد کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے کہ ۶ اپریل عالمی یو م صحت کی مناسبت سےدنیا بھر میں ہونے والی تقاریب کا آغاز ہمدرد فائونڈیشن پاکستان کی اس کانفرنس سے ہوتا ہے۔ اس سال زچگی کے دوران خواتین کی بڑھتی تعداد اور نومولود بچوں کی اموات جیسے سنگین چیلنجز کو اقوام عالم کے سامنے پیش کرنے کے لیے صحت مند آغاز، پُرامید مستقبل کاموضوع منتخب کیا گیا ہے۔ گوکہ پاکستان میں زچگی کے دوران ہونے والی اموات میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن ابھی بھی اعداد وشمار امید افزا نہیں ہیں۔روزانہ تقریباً ایک ہزار سے زیادہ خواتین ثقافتی رکائوٹوں، علاج معالجے کے نظام تک عدم رسائی، جنگ جیسی انسانوں کی اپنی پیدا کردہ غیر فطری تباہ کاریوں کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلی جاتی ہیں۔ یہ نہایت افسوس ناک صورت حال ہے۔ ان خواتین کے پاس جدید طبی سہولیات تک کی رسائی نہیں ہے۔ اُس سے بھی زیادہ اہم معلومات اور آگاہی کا فقدان ہے۔ صرف حکومتوں کے متحرک ہونے سے ہم محفوظ مستقبل ترتیب نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے تعلیمی اداروں، این جی اوز، میڈیا نیز ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔کوویڈ۱۹ عالمی وباء کے دوران جب ترقی یافتہ ممالک اس آفت کا مقابلہ نہیں کرپارہے تھے، پاکستان الحمد للہ سرخرو ہوا اور دنیا میں مثال بن کر اُبھرا۔ یہ امر ثابت کرتا ہے کہ ہم میں حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور استعداد کار موجود ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر زریاب سیتنانے کہاکہ نئی نسل کے افکار سُن کر اندازہ ہوا کہ ہم سب اپنے مذہبی ، ثقافتی، لسانی فرق کے باوجود درحقیقت ایک ہیں۔ پاکستان کے شعبہ صحت میں شہید حکیم محمد سعید کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔آج اُن کا قایم کردہ ہمدرد پاکستان پوری طرح سے شعبہ طب کی قومی وسطح پر ترقی کے لیے سرگرم ہے۔نئی نسل کو کم خوراکی سے بچانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کم خوراکی سے نہ صرف بچوں کی نشونما پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ اُن کی ذہنی صلاحیتیں بھی ماند پڑ جاتی ہیں۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ آج بھی ہمارے ملک میں بچے اور خواتین ایسی بیماریوں اور امراض سے انتقال کرجاتے ہیں جن کے علاج باآسانی دستیاب ہیں۔ اسکولوں سے آگاہی مہم کا آغاز کرنا ہوگا اور بچوں کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے پروگرامز اور نصاب ترتیب دینا ہوگا جو اُن میں حفظان صحت کے اصول اُجاگر کرے۔ علاوہ ازیں اُن کی کھیلوں کی سرگرمیوں کو بڑھانا ہوگا اور مفصل ہیلتھ کیئر نظام کو اُن کی دسترس میں لانا ہوگا۔بامقصد پائیدار ترقی مشترکہ کوششوں کی بدولت ہی ممکن ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈ روس ادہانوم گھبریسس ، رینجل ڈائریکٹر ڈاکٹر حنان بالکھی اور پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کی ڈپٹی نمائندہ ایلین تھوم نے اپنے خصوصی تہنیتی پیغامات میں ہمدرد فائونڈیشن پاکستان ، بالخصوص محترمہ سعدیہ راشد کی ملک میں قیام صحت کے لیے جدوجہد اور تین دہائیوں پر مشتمل متحرک کردار کو سراہا۔
ہمدرد پاکستان کی منیجنگ ڈائریکٹر فاطمہ منیر احمد، عالمی ادارہ صحت سب آفس خیبر پختونخوا کے ہیڈڈاکٹر محمد بابر عالم،سب آفس پنجاب کے ہیڈ ڈاکٹر جمشید احمد اور سب آفس بلوچستان کے ہیڈ ڈاکٹر اسفند یار شیرانی نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا اور کہا کہ بچوں کی صحت سے مراد اُن کی ذہنی، جسمانی اور روحانی صحت ہوتی ہے۔ہر بچے کو ایسا مثبت باشفقت ماحول چاہیے ہوتا ہے جس میں وہ پرورش پائے اور اُسے ذہنی، فکری اور جسمانی تربیت ملے۔یہ صحت مند آغاز ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ ترقی یافتہ معاشرہ تب ہی قایم ہوتا ہے جب بچوں پر سرمایہ کاری کی جائے۔تن درست سماج کے لیے بچوں کے ساتھ صحت مند خواتین کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں ماحولیات کی اہمیت بھی اُجاگر کرنی ہوگی۔ اربنائزیشن سے قیمتی زرعی اراضی اور جنگلات متاثر ہورہےہیں جس سے ماحولیات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اقتصادی ترقی کا سب سے بہتر ماڈل انسانی وسائل کو ترقی دینا ہے۔ ہمدرد پاکستان ملک میں عالمی ادارہ صحت کا اہم ترین شراکت دار ہے۔
کانفرنس میں مقامی اور غیر ملکی نونہال مندوبین نے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جن میں امریکہ سے محمود اسمر، روس سے سبرینا، ملائیشیا سے مریم بنت عبداللہ، آسٹریلیا سے سید صائم مبشر، اور ایران سے صبا مرزائی شامل تھے۔پاکستان کے مختلف شہروں سے شرکت کرنے والے مندوبین میں شامل تھے: عائزہ ارسلان (ہمدرد پبلک اسکول)، مائرہ (ہمدرد ولیج اسکول)، مرزیہ علی مرتضیٰ (ماماپارسی اسکول، کراچی)، زہرا فاطمہ (حبیب گرلز اسکول، کراچی)، وونزیل پال (سینٹ جوزف کانوینٹ اسکول، کراچی)، جینیفر خرم (سینٹ مائیکل ہائی اسکول، کراچی)،رُحما گلزار(پاک لینڈاسکول اینڈ کالج سسٹم ، راولپنڈی)، شاعرا آصف (سٹی انگلش اسکول، راولپنڈی)، عائشہ مصطفیٰ (ہمدرد پبلک اسکول، لاہور)، فاطمہ شہباز (گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول، لاہور)، عبداللہ خلیل (ورسک ماڈل اسکول اینڈ کالج، پشاور)، فواد حسن (فرنٹیئر ماڈل اسکول بوائز، پشاور)، حُسنہ سبحان اور زینب (ایس او ایس چلڈرن ولیج اسکول، کوئٹہ)۔