کسی کو غیر معمولی خدمات کے عیوض تحفہ دینا مہذب معاشری میں اعزاز مانا جاتا ہے مگر جہاں بچی کھانے کو ترستے ہوں وہاں یہ اعزاز کسی عذاب سے کم نہیں۔
جس ملک میں غربت بچے دیتے جارہی ہو اور ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہی ہو وہاں کسی کو سونے کا تاج پہنانا غربت کو للکارنے کے بجائے غریبوں کو للکارنے سے کم نہیں۔
سندھ بھر میں بغیر چھت کے اسکول ہیں اور ان اسکولوں تک جانے کیلئے نہروں پر لکڑی کے پل بنی ہوئی ہیں جہاں سے بچے زندگی خطرے میں ڈال کر اسکول جاتے ہیں مگر اس طرف کیس کا بھی دیھان نہیں۔
صابق صوبائی وزیر منظور وسان، سابق ایم این اے ملک اسد سکندر، سابق ایم پی اے سکندر شورو،سید غلام مصطفیٰ شاہ، ملک سکندر خان کھوسو، سابق ایم این اے سیدہ نفیسہ شاہ، سابق ایم این اے سائرہ بانو، نادر اکمل لغاری،علی حسن زرداری و دیگر کو سونے کے تاج پہنائے جا چکے ہیں۔
تحفہ دینا سنت رسول ﷺ ہے اس سے کسی کو بھی انکار نہیں اور نہ ہی کوئی سوچ بھی سکتا ہے، مگر جس ملک میں لوگ بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کررہے ہیں، اور خود ملک ہی قرضے پر چل رہا ہو ایسے میں سونے کا تاج پہنانے کی روایت کیا کیا دیتی ہے؟
اس حوالے سے رابطہ کرنے پر سندھ کے نامور ادیب و دانشور پروفیسر اعجاز قریشی نے کلک بریکنگ 24 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دینا جدید دنیا ہے، سائنس، علم و تعلیم کی دنیا ہے، سونا تاج پہنانے کی روایت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
ایک سوال کے جواب میں پروفیسر اعجاز قریشی کا کہنا تھا کہ مغلوں، ٹالپروں و دیگر حکمرانوں کے دور حکومت میں راجہ رنجیت سنگھ کو سونے کا تاج اور دیگر تحفے دیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ انگریز کسی کو اعزاز دینا چاہتے تھے تو شمس الماء یا دیگر لفظی خطاب دیتے تھے مگر دور جدید میں کچھ اور ہی دیکھنے کو ملر رہا ہے۔