سروے رپورٹ: ماحولیاتی تحفظ کے بین الاقوامی ادارے IUCN نے سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی اور محکمہ وائلڈ لائف کے تعاون سے تھرپارکر میں جانوروں، پودوں، درختوں، پودوں اور گھاس کا سروے کیا جس کے بعد IUCN کی جانب سے ایک جامع رپورٹ جاری کی گئی۔ انہوں نے پرندوں اور جانوروں کی مختلف انواع کے تحفظ پر زور دیا ہے بلکہ کارونجھر میں ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
یہ سروے 2020 سے 2022 تک مختلف اوقات میں کیا گیا اور اس کی رپورٹ 2023 کے آخر میں جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پودوں کی 149 انواع، پرندوں کی 187 اقسام، ممالیہ جانوروں کی 26 اقسام، آبی اور زمینی جانوروں کی 3 اقسام، فقاری جانوروں کی 20 اور غیر فقاری جانوروں کی 106 اقسام ہیں۔ جبکہ ہریالی سے تعلق رکھنے والے ‘گوگر’ اور ‘روھیڑو’ کے درختوں کا بھی مطالعہ کیا گیا، جنہیں IUCN کی ریڈ لسٹ میں شامل کرکے انتہائی خطرے میں قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق طبی اور تجارتی مقاصد کے لیے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے گھاس اور پودوں کی کئی اقسام زوال کے دہانے پر ہیں۔
تھرپارکر میں مویشی روزی روٹی کا بنیادی ذریعہ ہے جس کی وجہ سے بہت کم تعداد میں مویشی پالے جاتے ہیں اور چراگاہوں پر اس کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت خطے میں مویشیوں کی آبادی 65 لاکھ ہے۔ مویشیوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کے نتیجے میں، گھاس کے میدانوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور جنگلی حیات کے لیے رہائش گاہیں تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔ آئی یو سی این کی رپورٹ کے مطابق پرندوں کی تحقیق کے دوران ہر جگہ چڑیا اور بلبل پائے گئے۔جب کہ ‘چانھ’ پرندہ، ‘ملھالو، اور بڑے کانوں ‘ملھالو’ بہت ہی کم دیکھا گیا تھا۔ ایویئن انوینٹری میں، گدھ کی تین اقسام کو انتہائی خطرے سے دوچار قرار دیا گیا ہے، جن میں ریڈ ھیڈیڈ ولچر، وائیٹ رمپڈ ولچر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، عالمی سطح پر خطرے سے دوچار پرندوں میں گدھ اور میدانی عقاب بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تھرپارکر میں 6 عالمی سطح پر خطرے سے دوچار پرندوں کی بکھری ہوئی آبادی بھی ریکارڈ کی گئی، جن میں تھرانڈو،شہنشاہی عقاب (امپیریل ایگل)، پھلپلو عقاب، تلور، ٹی یا چائے(چائے پرند) اور کوکو عقاب شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کارونجھرکا پہاڑی سلسلہ خطرے سے دوچار 14 پرندوں کی اقسام کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، ایک طرف کارونجھرپر درخت اور پودے ان پرندوں کی خوراک فراہم کرتے ہیں تو دوسری طرف ننگرپارکر اور سلام کوٹ کے مختلف علاقے بھی خوراک کا ذریعہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سروے میں دودھ دینے والے جنگلی جانوروں کی 14 اقسام ریکارڈ کی گئی ہیں جن میں سے عالمی سطح پر خطرے سے دوچار ھاتار(چراخ) کی آبادی میں زبردست کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی آبادی کی معلومات کی بنیاد پر بھارتی سرحد سے متصل علاقے میں نیل گائے کو دن اور رات چہل پہل کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ جبکہ چنکاری کو کارونجھر پہاڑ کے ساتھ ننگرپارکر اور اسلام کوٹ کے ریت کے علاقوں اور جنگلات میں بھی دیکھا گیا۔ سروے میں شکاری جنگلی جانوروں جیسے گیدڑ اور جنگلی بلیوں کا بھی مطالعہ کیا گیا۔
IUCN کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درخت، پودے اور جانور نہ صرف تھرپارکر کے نازک ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں بلکہ مقامی آبادی کے لیے ذریعہ معاش بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس خطے میں موجود نایاب جنگلی جانوروں میں نیل گائے، چنکارو، ایشیائی بھیڑیا اور جنگلی سؤر شامل ہیں لیکن ان کی آبادی میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ جبکہ عالمی سطح پر خطرے کا شکار جانور حطار بھی کارونجھر کی پہاڑیوں پر رہتا ہے۔ جبکہ مطالعہ کے دوران پانی اور خشکی میں رہنے والے جانوروں کی تعداد بھی بڑی تعداد میں ریکارڈ کی گئی ہے۔
IUCN کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درخت، پودے اور جانور نہ صرف تھرپارکر کے نازک ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں بلکہ مقامی آبادی کے لیے ذریعہ معاش بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس خطے میں موجود نایاب جنگلی جانوروں میں نیل گائے، چنکارو، ایشیائی بھیڑیا اور جنگلی سؤر شامل ہیں لیکن ان کی آبادی میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ جبکہ عالمی سطح پر خطرے کا شکار جانور حطار بھی کارونجھر کی پہاڑیوں پر رہتا ہے۔ جبکہ مطالعہ کے دوران پانی اور خشکی میں رہنے والے جانوروں کی تعداد بھی بڑی تعداد میں ریکارڈ کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ بنجارے پرندوں کے ساتھ مقامی پرندے بھی بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ اس خطے میں عالمی سطح پر خطرے سے دوچار جانوروں اور پرندوں کی موجودگی اس خطے کے ماحولیاتی نظام کی غیر معمولی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ IUCN کی رپورٹ کے مطابق درختوں، پودوں، جنگلی حیات، جانوروں اور پرندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو انسانی استحصال سے بچانے کا طریقا کسی بھی دوسرے طریقکار سے زیادہ موثر رہا ہے۔ اس کی وجہ ماحولیاتی نظام کا ادراک ہے۔ کارونجھر خطرے سے دوچار پرندوں اور جنگلی جانوروں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے۔ تاہم چنکاری اور نیل گائے کو بھی بھارتی سرحد سے متصل علاقوں میں شکاریوں سے محفوظ رکھا جا رہا ہے۔ منصوبہ کے تحت کارونجھر وادی میں خطرے سے دوچار جانوروں، پرندوں ہریالی کو بھی تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین کا کارونجھر کو نیشنل پارک یا قدرتی ورثہ قرار دینے کا مطالبہ
جنگلی حیات کے ماہرین نے بھی کارونجھر کو نیشنل پارک یا قدرتی ورثہ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ تھرپارکر کا سروے کرنے والی IUCN کی ٹیم میں شامل جنگلی حیات کے ماہر نوید سومرو نے کہا کہ تھرپارکر میں حیاتیاتی پناہ گاہیں یا ٹھکانے کم ہو گئے ہیں جن کی بہت ساری وجوہات ہیں۔
مثال کے طور پر چراگاہوں سے زائد مال مویشی ہونا، درختوں کی کٹائی، بھاری مشینری کا استعمال، قدرتی پودوں کی کٹائی اور زمین میں ہل چلانا بھی اس کی وجوہات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تھرپارکر کے ریت والے علاقوں میں بہت سے سانپ اور فقاریہ جانور تھے لیکن سانپوں کی تعداد میں کمی آئی ہے اس لیے دیگر فقاریہ جانور نایاب ہوگئے ہیں، مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ نوید سومرو نے کہا کہ کارونجھر کو نیشنل پارک اور قومی ورثہ کا درجہ دیا جائے، جنگلی حیات کے ماہر سرور جمالی نے کہا کہ کارونجھر میں بہت زیادہ حیاتیاتی تنوع ہے۔
حکومت اس کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ حیرت ہے کہ اس ریجن میں محکمہ وائلڈ لائف کا عملہ نہ ہونے کے برابرہے، کوئی ایک افسر کے علاوہ کوئی ٹیم موجود نہیں، ایسی صورتحال میں بائیو ڈائیورسٹی کو کیسے بچایا جا سکتا ہے، تھرپارکر جیسے خطہ میں بھی محکمہ وائلڈ لائف کا عملہ کیونہیں تعینات کیا جا رہا؟ کارونجھر کو نیشنل پارک قرار دیا جائے تاکہ حطار، ہرن، کالے ہرن اور دیگر جنگلی حیات کو تحفظ ملے۔