تصوف میں نہ تو کوئی علم تھا نہ ہے:کراچی میں تقریب

تصوف میں نہ تو کوئی علم تھا نہ ہے:کراچی میں تقریب

انشور جامی چانڈیو نے کہا کہ تصوف میں نہ تو کوئی علم تھا نہ ہے،تصوف میں کچھ اقداراور تصورات ہیں جو آج بھی ہمارے کام آسکتے ہیں

کراچی:رٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ فار پرزرویشن آف ہیرٹیج آف سندھ کے مشترکہ تعاون سے صوفی ازم کے موضوع پر سیشن کا انعقاد احمد شاہ بلڈنگ آڈیٹوریم IIمیں کیا گیا جس کی صدارت حمید ہارون نے کی جبکہ نورالہدیٰ شاہ، ڈاکٹر سید جعفر احمد، حمید اخوند، منور علی مہیسر، پروفیسر کے ایس ناگ پال اور ڈاکٹر رفیق وسان نے بحث میں حصہ لیا،پینل ڈسکشن میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اسکالرز سمیت لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی

صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ کامل خان ممتاز بہت بڑے آدمی ہیں ان کا بہت بڑا کام ہے، مجھے اس طرح کے پروگرام دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، ہم سندھ کی صدیوں پرانی تاریخ پر ایک کانفرنس کا بھی انعقاد کریں گے جس پر کام بھی شروع ہوچکا ہے، مصنف اور مصور کامل خان ممتاز نے گفتگو کا آغاز معمار ہونے سے لے کر تصوف میں اپنی دلچسپی کے سفر کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہاکہ میں کوئی عالم نہیں بلکہ ایک آرٹسٹ ہوں، جب مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہوا تو پھر ازسرنو تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، اس زمانے میں نہ اتنا ادب تھا، ٹیچر تھے نہ ادارے جہاں پر مقامی ہیرٹیج اور ثقافت کے بارے میں کچھ سیکھ سکتے،چیزوں کے بارے میں علم نے ہمیشہ پریشان کیا،ایک خلا سا تھا جسے ہمیشہ محسوس کیا، پھر تصوف کی طرف حقیقت کو جاننے کا راستہ تلاش کیا، نور الہدیٰ شاہ نے کہاکہ تصوف کی بنیاد ہیومن رائٹس ہے، دین اور تصوف الگ الگ چیزیں ہیں ، سائنسی علم مشاہدے اور تجربے پر مبنی ہے اور عام طور پر اس کی وجہ سے اسے درست اور مستند سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پیری مریدی دکانداری تصوف نہیں ہے،

صوفی ازم پر بات چیت کے دوراں سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری رہاں، سیکریٹری اوقاف منور مہیسر اور دانشور جامی چانڈیو کے سوالات و جوابات پر پورا ہال تالیوں سے گونج تا رہا

شورعات میں کے ایس ناگپال نے بات کرتے ہوئے کہا کہ انسان ابھی تک اس تلاش میں ہے کہ وہ کہاں سے آیا کیا ہے اور کیوں آیا ہے، ڈاکٹر رفیق وسان نے کہا کہ نام نہاد صوفیوں کا کہنا ہے کہ صوفی ازم اینٹی ماڈرن ہے، صوفی ازم پاکستان سمیت دیگر مسلمان ممالک میں اپنی جگا بنا رہا ہے اس کا ثبوت آج کی کانفرنس ہے۔

سیکریٹری اوقاف منور مہیسرکا کہنا تھا کہ صوفی ازم محبت اور امن کا پیغام ہے، ہال میں کسی نے کہا کہ میں نہیں آؤں گا، جب انہوں نے دیکھا آیا ہے تو کہا اب تبلے کی آواز سنینگے، تو میں نے کہا کہ جی بلکل مجھے تبلا بہت پسند ہے۔ سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے، ہم محبت سے ہر کام کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر سید جعفر کا کہنا تھا کہ سندھ کو امن ک دھرتی کہنا کوئی فخر کی بات نہیں، تنازعات ہر جگہ ہوتے ہیں،صوفی ازم میں مزاحمت کی بہت سی مثال ملتی ہیں،

نامور رائیٹر نورالہدیٰ شاہ کا کہنا تھا کہ پیری مریدی کوئی صوفی ازم نہیں بلکہ یہ سب دکانیں ہیں، جہاں تک میں سمجھ سکی ہوں تو ظلم کے خلاف احتجاج کا نام صوفی ازم ہے،تصوف ہومن رائیٹرس لیکر آیا ہے۔

دانشور جامی چانڈیو نے کہا کہ تصوف میں نہ تو کوئی علم تھا نہ ہے،تصوف میں کچھ اقداراور تصورات ہیں جو آج بھی ہمارے کام آسکتے ہیں، تصوف بنیادی دور پر قدیمی زمانی کی روایات میک آف فزیکل ہے جو سمجھتی ہے کہ جو دکھتا ہے اس کے پیچھے کوئی اور حقیقت ہے، صوفی ازم سے فلسطین فتح نہیں کیا جاسکتا۔

کامل خان ممتاز نے کہا کہ مسئلہ ہے علم کا اور حقیقت کا، علم کا زندگی سے کیا تعلق ہے، کہاں سے آیا یعنے تاریخ، کس مقام پے ہوں، اس کو سمجھتے ہوئے پر انسان آگے کی منزل طے کرتا ہے،انسان، انسان ہونے کے ناتے ان خیالات کے حوالے سے یہ سمجھتا ہے کہ یہ حقیقت ہے، یہ میں ہوں، آپ انسان ہیں تو عمل کیا کرتے ہیں۔

آخر میں علن فقیر کے بیٹے فہیم الن اور صوفی فنکار مانجھی فقیر نے فن کا مظاہرہ کیا جہاں حق موجود کے نعرے گونج تے رہے۔

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں