کراچی: سکھر کے علاقے سنگرار سے لاپتا ہونے والے ننی پری پریا کماری کو والدین سے بچھڑے ڈھائی سال بیت گئے۔
پریا کماری کی بازیابی کیلئے مسلسل آواز اٹھائی جارہی ہے مگر ابھی تک بازیاب نہیں ہوسکی
آج کراچی میں سول سوسائیٹی کی جانب سے پریا کماری کی بازیابی کیلئے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا گیا۔
احتجاج میں سماجی کارکن خداڈنو شاہ، مرک منان چانڈیو، معروف شاعر حسن پٹھان، مہیش کمار،سہراب سومرو و دیگر نے شرکت کی۔
شرکا کا کہنا تھا کہ ڈھائی سال گذر جانے کے باوجود سکھر پولیس معصوم پریا کماری کو بھی بازیاب نہیں کرا سکی۔
ان کا کنہا تھا کہ جب بھی احتجاج ہوتے ہیں تو پولیس پریا کماری کی بازیابی کا آسرا دیکر چلی جاتی ہے مگر بازیابی عمل میں نہیں آتی۔
سماجی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پریا کماری کی والد اپنی بیٹی کو یاد کر کر کے ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوگئی ہے، نگران حکومت نے بھی کچھ نہیں کیا۔
رہنماؤں نےمطالبہ کیا کہ معصوم پریا کماری کو فی الفور بازیاب نہیں کرایا نے کی صورت احتجاج جا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
پریا کماری کی بازیابی کیلئے حیدرآباد میں بھی احتجاج
حیدرآباد میں جیئے سندھ محاذ کی جانب سے پریا کماری کی بازیابی کے لیے حیدرآباد پریس کلب پر احتجاج کیا گیا
احتجاج میں جئے سندھ محاذ کے چیئرمین ریاض چانڈیو، ایس یو پی رہنما روشن برڑو، پنھل ساریو، آکاش ملاح، بدر چنہ و دیگر نے شرکت کی،
دوراں احتجاج شرکاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے جن پر پریا کماری کی بازیابی کا مطالبہ درج تھا
ڈھرکی: سول سوسائٹی کی پریا کماری کی بازیابی کے لیے ریلی
اودھر سول سوسائٹی ڈھرکی کی جانب سے پریا کماری کی بازیابی کے لیے احتجاجی ریلی نکالی گئی
ریلی میں نیشنل پیپلز موومنٹ کے مرکزی رہنما تراب علی شر، جمال بھٹو، محب علی سندھی، اختر سمیجو، سندھی لٹریری سوسائٹی کے فدا ملک، زاہد علی بھٹو، ساگا کے کنوینر جی ایم لاڑک، پروفیسر ایم ڈی راجڑی، ایس یو پی کے راشد علی کانجو، ایس ٹی پی کے معروف سمیجو، یوتھ کونسل کے شعیب سندھو، اظہر علی، شہزاد ڈاہر، علی چاچڑ، الطاف سمیت شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تبسم، بختیار علی چاچڑ، مزدور رہنما غلام سرور سمیجو، سینئر قوم پرست رہنما کامریڈ ظہور ڈیو، امیر علی بھٹو نے بھر پور شرکت کی۔
احتجاجی ریلی کی قیادت زاہد علی بھٹو، تراب علی شیر، پروفیسر ایم ڈی راجڑی، راشد علی کانجو، الطاف تبسم، شعیب سندھو، بختیار علی، برکت علی چاچڑ نے کی، انہوں نے زوردار نعرے لگائے۔
رہنماؤں نے خطاب میں کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ پریا کماری کو ڈھائی سال سے یرغمال بنایا گیا ہے اور پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے بازیاب کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکے
رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ پریا کماری، فضیلہ سرکی سمیت تمام مغویوں کو فوری بازیاب کرایا جائے اور سندھ میں بڑھتی ہوئی بدامنی کا خاتمہ کیا جائے۔
پریا کماری کی کہانی، والد کی زبانی
سات سالا پریا کماری ضلع سکھر کی تحصیل روھڑی کے نواحی گاؤں سنگرار سے 2021-08-19 سے لاپتا ہوئی جس کا ابھی تک پتا نہیں چل سکا۔
پریا اپنے گھر والوں کی نہیں بلکہ گاؤں والوں کی بھ پری تھی مگر نہ جانے کس نے ننی پری کے پر باندھ کر اپنے پاس بھٹادیا جو آج نہ تو وہ اڑان بھر کے اپنے والدین کے پاس آسکتی ہے اور نہ ہی اس کی پکار اعلیٰ ایوانوں تک پہنچتی ہے۔
پریا کے والد راجکمار انوپانی بتا تے ہیں کے وہ دس محرم کا دن تھا جب پریا کماری شہدائ کربلا کی سبیل دیتے ہوئے کیمپ سے لاپتا ہوگئی۔
راجکمار انوپانی نے کہا کہ گاؤں گاؤں شہر شہر پریا کو تلاش کیا مگر کہیں بھی پتا نہیں چلا تو تھانہ جا کر رپورٹ درج کروائی۔ اس دن سے آج دن تک کوئی بھی دن ایسا نہیں جو ہمارے لیئے قیامت سے کم گرا ہو۔
انہوں نے کہا کہ پریا کے لاپتا ہونے والے دن سے آج تک ان کی والدہ بیحال ہیں اور ذھنی امراض میں مبتلا ہوتی جارہی ہیں اور ھر وقت پریا کو ہی یاد کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پریا کے بھائی معصوم بلرام جب اپنی بہن کا پوچھتے ہیں تو ہماری آنکھوں میں آنسوں آجاتے ہیں اور اسے تسلی دیتے ہیں کے پریا آنے والی ہے۔
راجکمار انوپانی کا کہنا تھا کہ ہماری کسی سے بھی دشمنی نہیں، اور نہ ہی آج تک کسی نے پریا کی آزادی کے لیے تاوان طلب کیا ہے۔ ڈھائی سال سے زائد کے عرصہ میں کہیں سے بھی تاوان کے لیے فون نہیں آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس اپنی مرضی سے تفتیش اور تلاش کر رہی ہے، ہمیں صرف آسرا دیا جاتا ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں بتایا جاتا۔
راجکمار انوپانی نے ایک بار پھر اعلیٰ حکام سے معصوم پریا کماری کو بازیاب کرانے کی اپیل بھی کی۔