سندھ میں 50 فیصد پانچ سال سے کم عمر بچے غذائی قلت کا شکار ہیں: ایس ایم بی بی ایم یو میں کانفرنس
ایس ایم بی بی ایم یو لاڑکانہ کی جانب سے سندھ میں غذائی قلت کے خاتمے کے لیے قومی کانفرنس کا انعقاد
لاڑکانہ:شہید محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی (ایس ایم بی بی ایم یو) لاڑکانہ کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں بتایا ہے کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ کی جانب سے چانڈکا میڈیکل کالج میں ” سندھ میں غذائی قلت کے خاتمے ” کے موضوع پر ایک اہم قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں صحت، غذائیت، تعلیم، ترقی، اور سول سوسائٹی سے وابستہ اداروں اور تنظیموں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
یہ کانفرنس شہید محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ کی میزبانی میں، یورپی یونین کی مالی معاونت اور انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (IRC) کی قیادت میں، Strengthening Participatory Organization (SPO)، شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور، MERF، سکھر کی شہید بے نظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی، ضیاءالدین یونیورسٹی سکھر کیمپس، زیبسٹ لاڑکانہ، غلام محمد مہر میڈیکل کالج سکھر، PPHI، AAP ٹاسک فورس، محکمہ صحت، اور نجی شعبے کے اداروں کے اشتراک سے منعقد ہوئی۔
افتتاحی اجلاس میں ایس ایم بی بی ایم یو کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نصرت شاہ نے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا، جب کہ شریک اداروں کے نمائندگان اور سینئر فیکلٹی ممبران نے غذائی قلت جیسے اہم مسئلے سے مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔
کانفرنس کے دوران سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے معلوماتی اسٹالز اور پوسٹر نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا، جس میں کمیونٹی سطح پر غذائیت کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے، کامیاب منصوبوں، اور سوشل اینڈ بیہیویرل چینج کمیونیکیشن (SBCC) پر مبنی تحقیقی پوسٹرز پیش کیے گئے۔
کانفرنس میں انکشاف کیا گیا کہ سندھ میں 50 فیصد پانچ سال سے کم عمر بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جبکہ 40 فیصد بچے وزن کی کمی کا شکار ہیں۔ 50 فیصد سے زائد بچے خون کی کمی (Anemia) میں مبتلا ہیں، اور 60 فیصد سے زائد حاملہ خواتین میں آئرن کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ دوسری جانب یہ افسوسناک حقیقت بھی سامنے آئی کہ سندھ میں تقریباً 25 فیصد خوراک ضائع ہو رہی ہے۔
ٹیکنیکل سیشنز میں غذائی قلت کے اعداد و شمار، اس کے سماجی اثرات، اور ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت (AI) اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی مدد سے غذائیت کی خدمات میں بہتری کے امکانات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر نوجوانوں کی بھرپور شرکت کو خاص اہمیت دی گئی، جہاں طلبہ نے تحقیقی مقالے، ٹیکنیکل ڈیموز اور جدید خیالات پیش کیے۔
کانفرنس کے اختتامی سیشن میں متفقہ طور پر یہ قرارداد پیش کی گئی کہ غذائی قلت جیسے اہم سماجی مسئلے کے حل کے لیے حکومت، تعلیمی اداروں، سول سوسائٹی اور ترقیاتی شراکت داروں کے مابین مضبوط روابط، جدت اور کمیونٹی کی فعال شمولیت ناگزیر ہے۔ یہ بھی اتفاق کیا گیا کہ اگر آج کی طرح تمام ادارے مستقل بنیادوں پر تعاون جاری رکھیں، تو غذائی قلت سے پاک سندھ کا خواب حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے، جہاں ہر شہری کو ایک صحت مند اور غذائیت سے بھرپور مستقبل میسر ہو۔