جاپان میں لومڑی کی اہمیت

الطاف شیخ

جاپان کے جانوروں کا ذکر کیا جائے تو ان میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل لومڑی ہے۔ نر اور مادہ دونوں کےلئے جاپانی لفظ ” کی تسونی“ استعمال ہوتا ہے، جس طرح انگریزی میں لومڑ اور لومڑی کےلئے ایک لفظFOX ہے۔ ہمارے ہاں بھی کئی جانوروں اور پرندوں کے نر اور مادہ کےلئے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً گیڈر، خچر، کوا وغیرہ۔ بہرحال جاپان میں ”کی تسونی“ اس لئے بھی مشہور ہے کہ اسے جاپانیوں کے دیوتا اناری کا قاصد سمجھا جاتا ہے۔ جاپان میں موجود شنتو دھرم کی بے شمار درگاہیں اناری دیوتا سے منسوب ہیں اور وہاں آپ کو ”کی تسونی“ یعنی لومڑی کی مورتیاں بھی نظر آئیں گی۔ سب سے بڑی درگاہ یا مندر کیوٹو کے علاقے فوشی میں واقع ہے اور اس کا نام ”اناری جنجا“ ہے۔

جاپان کی کئی لوک داستانوں اور بچوں کی کہانیوں میں ”کی تسونی“ کا ذکر ملتا ہے۔ جاپانی کلچر، دھرم، عقائد اور گمان کے مطابق لومڑی کو ذہین، قابل اور جادو کے کام انجام دینے والی ایک سپر نیچرل چیز تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ انسانی روپ بھی دھار سکتی ہے۔ وہ کئی کہانیوں میں وفادار گارجین، دوست، عاشق اور خدمت گار بیوی کے روپ میں بھی موجود رہی ہے۔ جس طرح ہندو دھرم میں کسی دیوتا کو ہاتھی اور کسی کو بندر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح جاپانیوں کے شنتو دھرم کے دیوتا اناری کے پیغامات پہنچانے کی ذمہ داری ”کی تسونی“ کے سپرد تھی (جاپانیوں کے عقائد کے مطابق)۔
جس طرح ہندو دھرم میں ہاتھی (گنیش)، بندر (ہنومان)، سانپ (ناگ دیوتا)، وغیرہ کی حیثیت سے اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ اسی طرح جاپان کے شنتو دھرم میں بھی لومڑی اناری دیوتا کے درجے پر فائز ہوچکی ہے۔ جاپان میں کم و بیش ایک لاکھ شنتو مندر ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان میں سے36 ہزار مندروں میں لومڑی ”کی تسونی“ کی مورتیاں موجود ہیں۔ یہ وہ مندر ہیں، جن میں بھکشو مستقل موجود رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ دفاتر، گھروں اور سڑکوں کے کنارے بے شمار ” اناری جنجا“ یعنی لومڑی سے منسوب چھوٹے چھوٹے مندر نظر آتے ہیں۔
کہانیوں میں لومڑی، لومڑ کی جتنی زیادہ دمیں ہوں گی، وہ اسی لحاظ سے قابل، اٹکل باز اور جادوئی طاقت والا مانا جاتا ہے۔ جاپانی روایات کے مطابق عمر کے ساتھ ساتھ لومڑی کی دموں میں اضافہ ہوتا ہے….۔ سو سال کے بعد ایک دم کا اضافہ ہوتا ہے اور ان کی زیادہ سے زیادہ تعداد نو ہوتی ہے۔

لومڑی کو جاپانی نام ” کی تسونی“ کیوں ملا….؟ اس حوالے سے ڈیڑھ ہزار برس پرانی کہانی بیان کی جاتی ہے، جس کے مطابق اونو نامی ایک جاپانی نوجوان مینو نامی جزیرے پر کسی ایسی لڑکی کی تلاش میں بھٹکتا رہا، جو انتہائی خوبصورت ہو۔ وہ گویا حسن کے اعلیٰ معیار کا متلاشی تھا۔ آخر کار ایک شام ایسی لڑکی سے اس کا سامنا ہو ہی گیا۔ وہ پہلی ہی نظر میں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے۔ انہوں نے فوراً شادی کر لی۔ ایک سال کے بعد ان کے ہاں ایک بیٹے نے جنم لیا۔ اتفاق کی بات یہ کہ اس جاپانی نوجوان نے جو کتیا پالی ہوئی تھی، اس نے بھی ایک پلے کو جنم دیا۔ وہ جوں جوں بڑا ہونے لگا، اونو کی خوبرو بیوی پر بھونکنے اور اس کی طرف لپکنے لگا۔ اس نے اپنے شوہر کی بڑی منتیں کیں کہ وہ اس چھوٹے سے پلے کو ہلاک کردے…. لیکن اس کا شوہر ہر مرتبہ اس بات کو ٹال جاتا۔ آخرکار ایک روز اس کتے نے اس کی بیوی پر اچانک حملہ کر دیا۔ وہ اس قدر خوفزدہ ہوگئی کہ عجلت میں اپنی اصل شکل یعنی لومڑی کے روپ میں آکر بھاگ کھڑی ہوئی۔
اونو نے اسے پکارا ”میں جان گیا ہوں کہ تم لومڑی ہو…. لیکن میرے بچے کی ماں بھی ہو۔ میں تم سے محبت بھی کرتا ہوں۔ تم مجھے ہر صورت میں عزیز ہو۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ واپس آجاو ¿…. میرے دل اور گھر میں تمہارے لےے ہر وقت جگہ ہے“۔
یہ باتیں سن کر لومڑی کا دل پسیجا اور وہ روزانہ شام کو چھپ چھپا کر اونو کے پاس آنے لگی۔ چونکہ وہ ہر رات کو انسانی روپ دھار کر بیوی کی حیثیت سے اس کے پاس آتی تھی اور صبح ہوتے ہی لومڑی کی شکل میں بھاگ جاتی تھی، اس لئے اس کا نام ” کی تسونی“ پڑا۔ کلاسیکل جاپانی میں ” کیتسونی“ کے معنی ہیں” آو ¿، میرے ساتھ سو جاو ¿“۔ لیکن یہی لفظ اس طرح لکھا جائے۔ ”کی تسونی“ تو اس کا مطلب ہے، ”ہمیشہ آنے والی“۔
یہاں یہ بھی تحریر کرتا چلوں کہ جو لومڑیاں جادو کے زور پر عورت کا روپ دھار لیتی ہیں، ان کی شناخت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کتے سے ہمیشہ ڈرتی ہیں۔ اس طرح لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ خوبصورت عورت دراصل انسان نہیں، بلکہ لومڑی ہے۔ بعض تو کتے سے اس قدر ڈرتی ہیں کہ اس پر نظر پڑتے ہی اچھل کر اپنی اصل یعنی لومڑی کی شکل میں آجاتی ہیں، تاکہ تیز دوڑ کر خود کو کتے سے محفوظ رکھ سکیں۔
لومڑ اپنی دم سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ وہ انسانی شکل تو اختیار کر لیتا ہے، لیکن اپنے جسم پر موجود بالوں(Fur) اور دم سے نجات نہیں پا سکتا۔ اس حوالے سے ” کو آن“ نامی ایک شخص کی لوک کہانی مشہور ہے۔ وہ ایک بڑا سادھو مانا جاتا تھا۔ کئی چیلے اس کی خدمت پر مامور تھے۔ وہ ایک دن کسی پیروکار کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ اس کے نہانے کا انتظام کیا گیا…. اور باتھ روم میں گرم پانی اس کے پیروں پر گر گیا۔ سخت تکلیف میں وہ یہ بھی فراموش کر بیٹھا کہ وہ بے لباس ہے۔ وہ چیختا ہوا باہر نکل آیا۔ تب گھر کے افراد اس کی دم اور جسم کی کھال لومڑ جیسی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس نے فوراً خود کو لومڑ کی شکل دی اور دیوار پھاند کر بھاگ گیا۔

جاپانی دیو مالائی قصوں اور داستانوں کے مطابق جاپان میں لومڑ کی کئی اقسام ہیں۔ انہیں دو اہم خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں ایک ”زین کو“ کہلاتے ہیں، جس کی لفظی معنی ہے ”اچھے لومڑ۔“ یہ ہمیشہ اچھے کام کرتے ہیں۔ انسانوں کے کام آتے ہیں۔ ان کی مدد کرتے ہیں۔ اور ان کا تعلق اناری سے جوڑا جاتا ہے۔ دوسرے ”یاکھ“ کہلاتے ہیں۔ اس کی لفظی معنی ہے ”میدانی لومڑ“۔ یہ مکار اور لوگوں کو نقصان پہنچانے والے بھی ہوتے ہیں۔
لومڑ اور لومڑیاں مختلف شکلیں اختیار کر سکتی ہیں۔ وہ خاص طور پر خوبصورت لڑکی کا روپ دھار لیتی ہیں۔ جاپان میں یہ اعتقاد عام ہے کہ کوئی خوبصورت لڑکی تنہا نظر آئے تو اسے یقیناً لومڑی سمجھنا چاہےے…. خاص طور پر غروب آفتاب کے وقت یا اعلیٰ لصبح!
عام طور پر لومڑی کو جاپان میں ایک ”سعد“ جانور تصور کیا جاتا ہے۔ کسی کو جنگل میں چلتے پھرتے لومڑ یا لومڑی نظر آجائے تو وہ اسے اپنی خوش بختی تصور کرتا ہے۔ اس شخص کو نیک اور پارسا قرار دیا جاتا ہے، جسے بار بار لومڑی کے درشن ہوں۔ اس کے ساتھ ہی لومڑی کی شکل سے مشابہت رکھنے والی لڑکیاں حسین سمجھی جاتی ہیں۔ انہیں ” کیتسونی گاو ¿“ یعنی لومڑی سے مشابہ کہا جاتا ہے۔
بہرحال ہمارے ہاں کونج، طوطے، مور اور جانوروں میں بکری، بلی کو پسند ضرور کیا جاتا ہے، لیکن یہ جنوں، بھوتوں کی طرح انسانوں میں حلول نہیں کر جاتے، جس طرح جاپانیوں کے عقائد یا وہم کے مطابق لومڑی انسان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ عموماً لومڑ، عورتوں کے ناخن یا سینے کے ذریعے وجود میں داخل ہوتا ہے، جس طرح ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ فلاں عورت پر جن کا سایہ ہے۔ پھر وہ جو کچھ بھی کہتی ہے، اسے جن سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جاپان کے لوگوں میں یہ وہم پایا جاتا ہے کہ بعض حالات میں لڑکی کے وجود میں لومڑ کے داخل ہونے سے اس کا چہرہ لومڑ سے مشابہ ہوجاتا ہے۔ جاپانی روایات کے مطابق لومڑ کے حلول کر جانے کے بعد ایک دیہاتی اور ان پڑھ لڑکی میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے، جس عورت پر لومڑ کا اثر ہوتا ہے۔ اس کےلئے جاپان میں کہا جاتا ہے کہ یہ عورت ” کیتسونی تسوکی“ کی حالت میں ہے۔
لومڑ نکالنے کےلئے اس عورت کے رشتے دار اسے اناری مندر میں لے جاتے ہیں، تاکہ وہ اپنے دیوتا (اناری) کے خوف سے عورت کے جان چھوڑ کر بھاگ جائے۔ جاپانی بتاتے ہیں کہ ماضی میں جب کوئی مریضہ آسان طریقے سے ٹھیک نہیں ہوتی تھی یا مندر میں پجاری، بھکشو موجود نہیں ہوتا تھا تو بیمار خاتون کو بری طرح سے مارا پیٹا جاتا تھا اور جلتی ہوئی لکڑی سے اس کے جسم کو داغا بھی جاتا تھا، تاکہ مریضہ کے ساتھ لومڑ کو بھی تکلیف پہنچے اور وہ اس میں سے نکل جائے۔ یہ سارا تماشا ہمارے ہاں ہونے والے ڈراموں سے ملتا جلتا ہے، جو دیہی علاقوں میں نفسیاتی عارضوں میں مبتلا عورتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
اناری مندروں میں جاپانی مرد و زن لومڑ کی مورتیوں کے سامنے مختلف نذر و نیاز پیش کرتے ہیں اور منتیں، مرادیں مانگی جاتی ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ لومڑ اناری دیوتا کا قاصد ہے۔ سو اسے خوش کرنے سے وہ اناری دیوتا سے سفارش کرکے سائل کی مرادیں پوری کرا دے گا۔
جاپانی لوک کہانیوں میں لومڑی کو عام طور پر محبوبہ دکھایا گیا ہے، جو بعد میں نوجوان مرد سے شادی کر لیتی ہے۔ بعض حالات میں وہ بچوں کو بھی جنم دیتی ہیں، جو بے حد ذہین ثابت ہوتے ہیں۔ جاپان میں پاسٹ، علم نجوم کے ماہرین اور جادوگروں کو ان لومڑیوں کی اولاد تصور کیا جاتا ہے۔
بہرحال یہاں بچوں کی ایک کہانی کا مختصر خلاصہ بیان کرتا ہوں، جس سے آپ کو اندازہ ہوسکے گا کہ جاپانی لوگ لومڑ اور لومڑی کےلئے کیا سوچ رکھتے ہیں اور بچوں کے ذہن میں کس قسم کے خیال انڈیلتے رہتے ہیں۔
کئی سال پہلے کی بات ہے کہ سو روگا نامی سنگلاخ علاقے میں ایک طاقتور نوجوان ویسو رہتا تھا۔ وہ لکڑ ہارا تھا اور بیوی بچوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ وہ روزانہ صبح منہ اندھیرے کلہاڑی اٹھائے گھر سے نکلتا اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شام کو واپس آتا اور پھر لکڑیوں کے اس گٹھے کو بیچ کر بچوں کےلئے چاول اور مچھلی کا ٹکڑا لے کر گھر پہنچتا تھا۔

ایک دن مندر کا بوڑھا پجاری اس کے گھر آیا اور اس سے کہا ”اے لکڑہارے نوجوان! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نے پوجا پاٹ سے بالکل کنارہ کر لیا ہے۔“
”سنئے محترم بھکشو! اگر آپ کے پیچھے بھی بیوی بچوں کی فوج لگی ہوئی ہو، تو آپ بھی شاید مندر کا منہ نہ دیکھیں اور نہ ہی گھر میں بیٹھ کر عبادت کر سکیں۔“
لکڑ ہارے کا یہ تلخ جواب سن کر بھکشو غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے بولا ”یاد رکھ ویسو! اگر تم پوجا پاٹ نہیں کرو گے تو مرنے کے بعد مینڈک، چوہے یا چیونٹی کی صورت میں دوسرا جنم لو گے۔ اس طرح تمہیں 500 سال گزارنے پڑےں گے۔“
ویسو یہ دھمکی سن کر دہل گیا اور بھکشو کی منت سماجت کرنے لگا۔ پھر اس نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ تمام دیوتاو ¿ں کو یاد کرتا رہے گا۔
” نہ صرف عبادت، بلکہ کام کرنا بھی ضروری ہے۔ محنت، مزدوری اور عبادت دونوں ساتھ ساتھ ہونی چاہئیں۔“ رخصت ہونے کے وقت مندر کے بوڑھے بدھ بھکشو نے اسے ذہن نشین کرایا۔
بدقسمتی سے ویسو پوری طرح بات کو سمجھ نہیں سکا اور وہ سب کام چھوڑ کر عبادت میں لگ گیا۔ وہ دن بھر مالا کے دانے گھماتا رہا۔ باقی ہر کام سے دستبردار ہوگیا۔ نہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جاتا، نہ ہی زمین کے ایک چھوٹے سے قطعے میں کاشت کی ہوئی دھان کی فصل کی دیکھ بھال پر توجہ دی۔ نتیجتاً وہ فصل برباد ہوگئی اور گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ ویسو کی بیوی، جس نے کبھی اس سے تیز لہجے میں بات نہیں کی تھی۔ اب وہ بھی اس سے جھگڑنے لگی۔ اس نے بچوں کے لاغر اور فاقہ زدہ جسموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”میاں، کچھ ان کے بارے میں بھی سوچو۔ یہ چلے کاٹنا اور مالا گھمانا چھوڑو اور کام دھندے کےلئے نکلو، تاکہ ہمیں کھانے کو کچھ مل سکے“۔
ویسو اپنی بیوی کو اس انداز میں بولتا ہوا دیکھ کر غصے میں بھر گیا اور بیوی سے بولا ”او گستاخ اور بے ادب عورت! پہلا درجہ دیوتاو ¿ں کا ہوتا ہے اور اس کے بعد دوسرے درجے پر بیوی بچے ہیں۔ آج تم نے میرے ساتھ بدکلامی کی ہے، میں تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا“۔ یہ کہہ کر اس نے کلہاڑی کا دستہ اٹھایا اور مزید کچھ کہے اور بیوی کی طرف دیکھے بغیر جھونپڑی سے نکل گیا۔ وہ جنگل میں چلتا رہا اور اسے عبور کرکے فیوجی پہاڑ کے سامنے جا پہنچا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ اس کا رخ چوٹی کی طرف تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دھند اور کہر میں غائب ہوگیا۔ کافی بلندی پر جا کر ویسو ایک درخت کے نیچے پتھر پر بیٹھ گیا۔ اچانک اسے پہلے تو پتوں کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی، پھر یکایک ایک لومڑی اس کے سامنے سے گزر کر سامنے کی جھاڑیوں میں چلی گئی۔ لومڑی کا نظر آنا ایک اچھا شگون ہے اور ویسو جاپ کو چھوڑ کر لومڑی کے تعاقب میں چل پڑا۔وہ لومڑی کی تلاش میں کچھ دیر ادھر ادھر بھٹکتا رہا، لیکن اسے دوبارہ لومڑی نظر نہیں آئی۔ وہ مایوس ہوکر لوٹنے والا تھا کہ اسے پہاڑ کے ایک سطحی حصے پر جہاں ایک چشمہ بہہ رہا تھا، اس کے کنارے دو لڑکیاں دکھائی دیں، جو آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔ وہ انتہائی خوبصورت تھیں۔ انہیں کھیلتا ہوا دیکھ کر ویسو بھی ان کے کھیل میں محو ہو گیا اور وہیں بیٹھ گیا۔ ہر جانب مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ بس چشمے کے بہتے پانی کی مدھر آواز تھی اور ان حسین لڑکیوں کی سرگوشیاں تھیں۔لڑکیوں نے قریب بیٹھے ویسو پر کوئی توجہ نہ دی۔ وہ پوری طرح کھیل میں مگن تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اس کی موجودگی سے بے خبر ہیں۔ ویسو پلکیں چھپکائے بغیر ان حسین لڑکیوں کی طرف دیکھتا رہا۔ ان کی حرکات سے لمبے گھنے بال لہرا کر ایسے ہچکولے لینے لگتے، جیسے بلندی سے کوئی آبشار گر رہا ہو…. ویسو سحر زدہ سا بیٹھا اس منظر کو دیکھے جا رہا تھا۔ وہ بیٹھا رہا، بیٹھا رہا، حتیٰ کہ یگ بیت گئے۔ اسے وقت کا کچھ احساس ہی نہیں رہا۔ تین سو سال گزر گئے اور وہ یہی سمجھتا رہا کہ اسے وہاں بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی ہے۔ اس نے دیکھا کہ کھیلتے ہوئے ایک لڑکی غلطی کرنے لگی ہے۔ وہ برداشت نہ کر سکا کہ اس غلطی سے لڑکی ہار جائے اور کھیل کا اختتام ہو جائے۔ اس نے چیخ کر لڑکی کو خبردار کرنا چاہا۔ یکایک یہ آواز سن کر لمحے بھر کےلئے دونوں لڑکیاں ٹھٹھکیں اور دوسرے ہی پل لومڑی کے روپ میں آکر ایک جانب بھاگ گئیں۔ویسو ان کے پیچھے جانا چاہتا تھا، لیکن اس نے دیکھا کہ اس کی ٹانگیں اور ہاتھ سوکھ کر بے جان سے ہوچکے ہیں۔ اس کی داڑھی اور سر کے بال بے انتہا بڑھ چکے تھے۔ اس کے علاوہ اس نے دیکھا کہ قریب موجود کلہاڑی کا دستہ جو اس نے مضبوط لکڑی سے بنایا تھا اب وہ برادے اور خاک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ وہ بڑی جدوجہد کے بعد اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکا اور دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اپنے گھر کی طرف چلنے لگا۔ جب وہ اپنے محلے میں پہنچا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ وہاں اس کی جھونپڑی کا وجود ہی نہیں تھا۔ ایک بڑھیا وہاں سے گزری تو ویسو نے اس سے پوچھا ”محترمہ! میں حیران ہوں کہ یہاں اس جگہ میرا گھر تھا، جو اب نظر نہیں آرہا۔ آج صبح میں گھر سے نکل کر کہیں گیا تھا اور اب شام کو واپس آیا ہوں تو یہاں نہ میری جھونپڑی نظر آ رہی ہے، نہ بیوی بچے!“
بوڑھی عورت سمجھی کہ یہ شخص پاگل یا دیوانہ ہے۔ وہ اسے نظر انداز کرکے جانے لگی اور جاتے جاتے اس کا نام پوچھ لیا۔ جب ویسو نے اپنا نام بتایا تو بڑھیا نے چیخ کر کہا ” تم واقعی پاگل ہو“۔ ویسو نام کا شخص تو عرصہ ہوا مر کھپ گیا۔ اس کےلئے مشہور ہے کہ وہ بیوی سے ناراض ہو کر گھر سے چلا گیا تھا اور پھر لوٹ کر نہیں آیا۔ اس بات کو تین سو سال ہو چکے ہیں“۔

” وہ بھی اس جہان میں نہیں رہے“۔ بڑھیا نے ویسو کو بتایا ”اور تم جو کچھ کہہ رہے ہو، اگر وہ سچ ہے تو پھر میں یہ کہوں گی کہ تمہارے بچوں کی اولاد بھی وفات پا چکی ہوگی۔ معلوم ہوتا ہے کہ قدرت نے تمہیں طویل عمر دے کر اس بات کی سزا دی ہے کہ تم اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر چلے گئے تھے“۔
ویسو کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس نے گھٹی گھٹی سی آواز میں کہا ”میری پوری جوانی چند لمحوں میں گزر گئی…. میں پوجا پاٹ میں مگن رہا اور میرے بچے فاقے کرتے رہے۔ انہیں میرے مضبوط ہاتھوں کی محنت کی ضرورت تھی تو میں انہیں بے سہارا چھوڑ کر چلا گیا۔ خاتون! تم میرے یہ آخری الفاظ یاد رکھنا۔ اگر تم پوجا کو وقت دیتی ہو تو کام کو بھی وقت پر انجام دو۔ پوجا کے ساتھ کام کاج اور محنت مزدروی بھی ضروری ہے“۔
ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ اپنی غلطی پر نادم ویسو مزید کتنے برس زندہ رہا، لیکن کہتے ہیں کہ اس کی روح آج بھی چاندنی راتوں میں فیوجی پہاڑ کے گرد چکراتی رہتی ہے۔
by: Altaf Shaikh, Marine Engineer / Travelogue Writer

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں