
موں کا موسم ایک بار پھر آچکا ہے۔ ہمارے ملک کے لوگ آموں کے موسم کا استقبال بڑی گرمجوشی سے کرتے ہیں۔ رمضان کے بابرکت مہینے کی طرح حق تعالیٰ کی اس نعمت کا انتظار کیا جاتا ہے۔ آم ہمارے ہاں کے امیروں اور غریبوں، دونوں کا پسندیدہ پھل ہے۔ یہ نہ صرف ایک پھل ہے بلکہ اس سے سالن کے طور بھی کھایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کئی لوگ آموں کے موسم میں چاول یا روٹی آم ہی سے کھاتے ہیں۔ آم میں ذائقے کے ساتھ خوشبو بھی پائی جاتی ہے۔ اس میں کئی پروٹین اور شکر موجود ہیں۔ آم ہمارے لوگوں کے لئے ایک بہترین پھل ہے۔
آموں کے موسم میں خربوزے، تربوز، سردے، چیکو، آلو بخارے وغیرہ یتیم بچوں کی طرح خریدار کے انتظار میں دکانوں اور ٹھیلوں پر پڑے رہتے ہیں۔ اس موسم میں کوئی مٹھائی پر بھی توجہ نہیں دیتا۔ بغیر شک و شبہے کے ہمارے لوگوں کے لئے آم پھلوں کا بادشاہ ہے۔ آم کے لئے میری رائے بھی یہی ہے۔ یہ بات دیگر ہے کہ کسی کے لئے سندھڑی (Madras Alphonso) پھلوں کا بادشاہ ہے تو کسی کے لئے چونسا، لنگڑا، د سہری، یا سرولی وغیرہ۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں بیگن پھلی اور سوارن ریکا کا نام لوں گا۔
یہ 1968ء کی بات ہے۔ میں نے تعلیم مکمل کرکے سمندری سفر کا آغاز کیا اور پہلی مرتبہ ملائیشیا کی بندرگاہ پینانگ پر قدم رکھا۔ اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی تھی جب میں نے یہاں کی مارکیٹ اور پھلوں کی دکانوں پر موجود ”دورین“ (Durian) نامی ایک بدصورت پھل کے لئے لوگوں کو دیوانہ دیکھا۔ میرے دریافت کرنے پر ہر شخص نے اس ”کم رو“ اور کانٹوں سے بھرے ہوئے دورین کو پھلوں کا بادشاہ قرار دیا تھا۔ میں سمجھا کہ شاید وہ مذاق کر رہے ہیں یا بطور طنز اس پھل کو بادشاہ کہہ رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک بدبودار اور بد شکل دورین کسی طرح پھلوں کا بادشاہ ہوسکتا ہے جبکہ کراچی سے کولکتہ، لاہور سے لکھنو اور ملتان سے ممبئی تک ہر ایک کو آم پسند ہے جس کے ذائقے، خوشبو اور رنگ کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔

لیکن چند لگاتار سمندری سفروں اور ان اطراف کی بندرگاہوں میں رہتے ہوئے میں نے یہ محسوس کیا کہ اس جانب بینکاک سے بینکولا اور سنگاپور سے کمپوچیا تک ہر شخص، دورین کو پھلوں کا سرتاج سمجھتا ہے۔
آم اور دورین میں فرق یہ ہے کہ آم کو ہر ایک پسند کرتا ہے۔ ممکن ہے کسی کو کم پسند ہو لیکن وہ ایسا ہرگز نہیں کہے گا کہ آم کو میرے قریب بھی نہ رکھا جائے۔ دورین کے ساتھ کچھ الٹا ہی معاملہ ہے۔ اسے ہر شخص پسند نہیں کرتا۔ جو اسے پسند کرتا ہے وہ دیوانوں کی طرح اس پر فدا ہے اور جو اسے ناپسند کرتا ہے وہ اس پھل سے سخت نفرت کرتا ہے۔ وہ دورین کی ہینگ جیسی چبتھی ہوئی بُو کے سبب اس کے قریب بھی نہیں جاتا۔ دورین ذائقے میں آم سے زیادہ شیریں ہے، لیکن اس کی بو سے الٹی آنے لگتی ہے۔ اس لئے اس پھل کو کچھ لوگ پسند کرتے ہیں اور دیگر اس سے دور بھاگتے ہیں۔ ان اطراف یعنی مشرق بعید اور جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں میں دورین کے لئے کہا جاتا ہے۔
"Durian is most loved and most hated fruit.”

اس پھل سے لوگ انتہائی محبت کرتے ہیں یا انتہائی نفرت! اس کے درمیان کوئی دوسرا احساس نہیں ہے۔
دورین، ناریل سے قدرے بڑا ہوتا ہے۔ اس کا بیرونی چھلکا سخت، کھردرا اور موٹے کانٹوں سے بھرا ہوتا ہے۔ ان کانٹوں ہی کی وجہ سے اس پھل کو دورین کہا جاتا ہے۔ ملئی زبان میں Duri کانٹے کو کہتے ہیں اور Durian کا مطلب ہے ”کانٹوں والا“
میں دس سال تک جنوب مشرقی ایشیا کی بندرگاہوں میں جاتا رہا ہوں۔ اس کے علاوہ مزید دس برس ملائیشیا کے شہر ملاکا میں ملازمت کی۔ اس دوران میں نے بڑی کوشش کی کہ دورین پھل یا اس سے تیار ہونے والے بسکٹ، کیک، چاکلیٹ کھائے جائیں، لیکن مجھے اس میں کامیابی نصیب نہیں ہوسکی۔ دورین کی بُو کالج کے دنوں میں کیمسٹری کلاس میں پیدا ہونے والی H2S گیس کی نتھنوں میں چبھنے والی (Pungent) بو کی یاد دلاتی ہے۔ جس کے لئے ہمارے مرحوم کلاس میٹ رفیع کاچھیلو کہتے تھے کہ یہ Devil’s Dung ہے۔
ملائیشیا میں پھلوں کی کمی نہیں ہے۔ ملائیشیا اور اس کے قریبی ملکوں تھائی لینڈ، انڈونیشیا، سنگاپور وغیرہ میں کئی اقسام کے لذیذ، خوشبودار اور شیریں گودے والے پھل پائے جاتے ہیں۔ مثلاً مینگو اسٹین، رمبوتان ، چیکو، ماتا کچنگ، ڈوکونگ، چمپداک، اسٹار فروٹ، لیچی، انناس، لونگان وغیرہ حتیٰ کہ ملائیشیا میں اعلیٰ اور بہترین جنس کا کیلا پیدا ہوتا ہے۔ خاص طور پر پسانگ اماس (سنہری کیلا) جسے جاپان اور یورپ کے ملکوں میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے لذیذ، سستے اور پسندیدہ پھلوں کی موجودگی میں اس علاقے کے لوگ دورین جیسے بد شکل اور بدبودار پھل کے پیچھے کیوں پاگل ہیں، جو قیمت میں انتہائی مہنگا ہے۔ خاردار جِلد کے سبب اسے اٹھانا بھی آسان نہیں ہے، اس کے علاوہ وہ خاصا وزنی بھی ہوتا ہے۔ وہ کھولنے میں سخت بلکہ خطرناک ہے، کیونکہ اس پھل کو توڑنے والے کے ہاتھ اکثر زخمی ہوجاتے ہیں۔ بقول یورپین کے اس پھل کی بو بدبودار جرابوں جیسی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس قدر بھاری پھل میں سے کھانے کے قابل بمشکل چند چمچ ہی گودا (Pulp) حاصل ہوتا ہے۔

ایگری کلچر اور باٹنی کے طلبا کے لئے تحریر کرتا چلوں کہ دورین کا تعلق Genus Durio فیملی سے ہے۔ وہ اپنے بڑے سائز، منفرد بو اور چبھنے والے کانٹوں سے بھرے چھلکے کے سبب ایک نمایاں پھل ہے۔ دورین لمبائی میں 12 انچ اور گولائی میں 6 انچ تک ہوتا ہے۔ وزن میں تین کلو تک بھی ہوتا ہے۔ اس کا بیرونی چھلکا سبز اور کتھئی ہوتا ہے۔ اس کا اندرونی حصہ جو کھایا جاتا ہے پیلا اور سرخ رنگ کا بھی ہوتا ہے۔ اس کھانے والے حصے میں بدبو ہوتی ہے جو اس قدر تیز اور چبھنے والی ہوتی ہے کہ بند دورین سے بھی محسوس ہوتی رہتی ہے۔ اگر کوئی ہوٹل یا عمارت سینٹرلی ایئرکنڈیشنڈ ہے تو ایک کمرے میں آنے والے دورین پھل کی بو تمام کمروں میں رہنے والوں کو محسوس ہوگی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دورین کی یہ بو کسی کو الٹی کرنے پر مجبور کرتی ہے تو کسی کے لئے یہ بدبو نہیں بلکہ عطر عنبرین سے بہتر خوشبو ہے۔ آپ دورین کھانے والے اور اس کے متوالوں سے پوچھیں گے تو وہ جواب دیں گے کہ اس پھل کی خوشبو باداموں جیسی ہے۔ جبکہ دوسرے لوگ اسے سڑے ہوئے پیاز کی بو سے تشبیہ دیں گے۔
اس پھل کے کانٹوں اور بو کے سبب ادھر کے ملکوں کے بڑے ہوٹلوں میں اسے لانے پر پابندی عائد ہے۔ سنگاپور کے نہ صرف ہوٹلوں اور دفاتر بلکہ میٹرو ریل اور پبلک بس میں بھی اس پھل کو لانے کی اجازت نہیں ہے۔ جگہ جگہ آپ کو Durians not allowed کے بورڈ نظر آئیں گے۔ میرے خیال کے مطابق یہاں کی حکومتوں کا یہ صائب فیصلہ ہے۔ ورنہ اس پھل کی بو سے نفرت کرنے والوں کا دم گھٹ جائے گا۔
جہاز چلانے والے دنوں میں جب ہمارا جہاز جون کے مہینے میں کراچی پہنچتا تھا تو میرے جہاز چلانے والے ساتھی خوشی خوشی میری ڈیوٹی انجام دیتے تھے تاکہ میں اپنے گاﺅں چلا جاﺅں اور واپسی پر آموں کے ٹوکرے بھی ساتھ لیتا آﺅں۔ آم ایک ایسا پھل ہے جسے ہر کوئی پسند کرتا ہے۔ یہ بات دیگر ہے کہ کوئی کم کھانا پسند کرتا ہو۔ ملائیشیا کے شہر ملاکا کے آفس میں تقریباً دس جہازوں کے کیپٹن اور چیف انجینئر ہوتے تھے۔ میں نے اس آفس میں آٹھ نو سال کام کیا۔ ہر سال دورین کے موسم میں ہم ایک یا دو مرتبہ چینی چیف انجینئر لاﺅسینگ کی جگہ ڈیوٹی انجام دیتے تھے تاکہ وہ اپنے گاﺅں موئر (Muar) جاکر واپسی پر دورین کا ٹوکرا لے آئے۔ پھر وہ دن ہمارے آفس میں مقامی ملئی اور چینی افسران کے لئے گویا یوم عید ہوتا تھا۔ باقی ہم چار پانچ غیر ملکی افسر دورین کی بو سے بے حال ہوجاتے تھے۔ اس پھل میں اس قدر تیز بو ہوتی ہے کہ ہمارے دوست کھانے کے بعد اچھی طرح صابن سے ہاتھ اور ہونٹ دھوکر آتے تھے۔ پھر بھی ان کے وجود ، خاص طور پر پسینے سے وہ بو آتی رہتی تھی۔
ہمارے ساتھ کام کرنے والے برطانیہ کے کیپٹن کیرو نے ایک مرتبہ ہمت کرکے دورین کا گودا چوس لیا تھا ۔ وہ کہتے تھے
"Mr. Altaf! Eating durian is like eating custard in a public toilet.”
کہتے ہیں کہ کئی برس پہلے دورین صرف ملئی لوگ کھاتے تھے اور ناریل، کٹھہل، انناس کی طرح انتہائی سستا پھل تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملائیشیا میں رہنے والے چینیوں کو دورین کا ایسا چسکا لگا کہ اب آپ کو جگہ جگہ اس پھل کو خریدنے والے چینی نظر آئیں گے جو ملئی لوگوں سے زیادہ امیر ہیں اور دورین کی قیمت زیادہ ہونے کے باوجود خرید تے ہیں۔
دورین کا پیڑ 25 سے 50 میٹر تک بلند ہوتا ہے۔ اس کے پتے ربڑ پلانٹ کی طرح ہمیشہ سبز رہتے ہیں۔ وہ سال میں ایک یا دو مرتبہ پھول پھل دیتے ہیں۔ یہ بات ہمارے لوگوں کے لیے شاید عجیب ہو جو سال میں چار مختلف موسم دیکھتے ہیں۔ لیکن ملائیشیا خط استوا کے قریب ہونے کے سبب وہاں ایک ہی نم اور گرم موسم رہتا ہے۔ میں دیکھتا تھا کہ ہمارے گھر کے کمپاﺅنڈ میں لگے ہوئے آم اور چیکو کے درخت بھی سال میں دو مرتبہ بور دیتے تھے۔
نیا لگایا جانے والا دورین کا درخت چار سے پانچ سال بعد پھل دیتا ہے۔ اس میں بور آنے (Pollination) کے تین ماہ بعد پھول آتا ہے۔ ہمارے ہاں دورین اور کٹھہل (Jack fruit) کو ایک ہی پھل سمجھا جاتا ہے۔ کٹھہل بنگلہ دیش اور جنوبی ہندوستان میں بھی پیدا ہوتا ہے جو سائز میں لمبا ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا کھردرا ضرور ہوتا ہے لیکن دورین کی طرح سخت نہیں ہوتا۔ لسوڑی کی طرح کم درجہ ہونے کے سبب بے حد سستا ہے جبکہ ملائیشیا اور سنگاپور میں دورین مہنگا ترین پھل ہے۔ مثلاً دورین کی زیادہ پسند کی جانے والی اقسام ڈی 24 (جو Duro Zibethinus ہے) سلطان اور ماﺅشان وانگ ہیں۔ ان کی قیمت 5 سے 10 امریکی ڈالر فی کلو ہے۔ ایک دورین کا اوسط وزن دو کلو بھی لگایا جائے تو ایک دانے کی قیمت ایک سے دو ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ اس میں کھانے والا حصہ جسے یہاں Aril کہا جاتا ہے وہ بمشکل 15 سے 25 فیصد ہوتا ہے۔ باقی موٹا چھلکا اور موٹے بیج ہوتے ہیں۔
دورین میں شکر، وٹامن سی، پوٹاشیم اور The Serotonergic Amino Acid Tryptophan کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کاربو ہائیڈریٹ، پروٹین اور چربی کا بھی Source ہے۔ ادھر کے لوگوں میں یہ وہم پایا جاتا ہے، بلکہ دیسی چینی حکیموں کے مطابق، دورین کی تاثیر انتہائی گرم ہے اور کھانے والے کو بہت پسینہ آتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں اور حاملہ خواتین کو دورین ہرگز نہیں کھانا چاہیے۔ کئی ملئی اور چینی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پھل مردانہ قوت میں اضافہ کرتا ہے۔ دورین معجونوں اور کشتوں کے کام آتا ہے۔ انڈونیشیا میں مشہور ہے کہ: Apabila Durian jatuh, Sarong naik ۔ ملئی لفظ ”جاتوح“ کا مطلب ہے گرنا، نیچے آنا اور نائیک کے معنی ہے اوپر چڑھنا۔ یہاں کے مرد و زن عام طور پر دھوتی باندھتے ہیں جسے ’سرونگ‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی جب دورین کا موسم آتا ہے اور یہ پھل درخت سے نیچے گرتا ہے، تو سرونگ اوپر اٹھتا ہے۔ یہاں یہ جملہ بھی عام ہے کہ اگر آپ فیملی پلاننگ چاہتے ہیں تو دورین سے دور رہیے۔

یہاں یہ بھی تحریر کرتا چلوں کہ دورین کو چننے اور درخت سے گرنے والے پھلوں کو جمع کرنے کے دوران ہیلمٹ پہننے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ کیونکہ درخت سے گرنے والا دورین نیچے موجود شخص کو زخمی کر سکتا ہے۔ دورین کے لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بینائی رکھتا ہے۔ وہ اس وقت درخت کی شاخ سے نہیں گرتا جب نیچے کوئی موجود ہو۔ دورین دنیا کا واحد پھل ہے جسے درخت سے توڑا نہیں جا سکتا۔ ملائیشیا میں ناریل توڑنے کا کام بندروں سے لیا جاتا ہے، لیکن وہ بھی دورین جیسے بھاری خاردار پھل توڑنے کا خطرہ مول نہیں لیتے۔ جب یہ پھل مکمل طور پر پک جاتا ہے تو خود ہی درخت سے ٹوٹ کر نیچے گرتا ہے اور تب ہی اسے درخت کے نیچے سے اٹھایا جاتا ہے۔ دورین عموماً رات کے وقت گرتا ہے اور اسے دن میں اٹھا لیا جاتا ہے۔ جس کے لیے میں گزشتہ سطور میں تحریر کر چکا ہوں کہ مالی، مزدور اور کاشت کار اس دوران ہیلمٹ یا موٹا تولیہ سر پر رکھتے ہیں۔ کیونکہ بلندی سے اچانک گرنے والا دورین سر پھاڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور بعض اوقات یہ ضرب اس قدر شدید ہوتی ہے کہ انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہاں کے بعض ملکوں میں کسی کو دورین مارنا ”اقدام قتل“ کا جرم ہے۔
میرے ایک ملئی دوست نے پاکستان میں آموں کے مختلف نام سن کر مجھ سے کہا ”یار آپ کے پھلوں کے سردار ’آم‘ کے یہ کیسے عجیب نام ہیں…. طوطا پری، بیگن پھلی، گلاب خاصا، لنگڑا، فجری، زردالو، کلیکٹر، راجا پوری….!“
ملائیشیا سے آنے والے اپنے مہمان کو میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا لیکن دیکھا جائے تو ان کے پھلوں کے بادشاہ ”دورین“ کے نام بھی عجیب ہیں جو مختلف اقسام کے رنگوں، سائز، ذائقے، شکل اور بو کے مطابق رکھے گئے ہیں۔ اس شہر ملاکا اور قریبی ریاست ”جوہور“ میں دورین کی جو اقسام مشہور ہیں، ان کے نام ہیں:
برونگ ہنتو (الو)، کچنگ تیدور (خوابیدہ بلی)، جینتاربومی (زلزلہ) وغیرہ۔
پینانگ کے قریب ”پلاﺅ بالیق“ نامی ایک جزیرہ دورین کے حوالے سے مشہور ہے۔ وہاں پائے جانے والے دورین کی چند اقسام اس طرح ہیں:
انگت انجنگ (غمگین کتا)، ناسی کنیت (ہلدی والے چاول)، تیمباگو (تانبا پیتل)، سموت (دیمک)، کیپاس (پنکھا)…. اس حد تک کہ دورین کی ایک جنس کا نام Kurap یعنی خارش زدہ کیڑا (ring worm) بھی ہے