سانحہ لیاری بغدادی عمارت کا ایس بی سی اے کے پاس رکارڈ موجود نہیں: سعید غنی
کراچی: وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ لیاری بلڈنگ سانحہ کے وقت ابتدائی رپورٹ میں جو عمارت گری تھی اس کا پلاٹ نمبر وہ نہیں جو دیا گیا تھا بلکہ اس عمارت کا پلاٹ نمبر دوسرا ہے اور یہ عمارت بھی مخدوش تھی البتہ وہ غیر قانونی طور پر 40 سے 50 سال قبل بنی ہوئی تھی، جس کا ایس بی سی اے میں کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ جن بلڈنگز کو مخدوش قرار دے کر توڑا جارہا ہے اس کے مکینوں کو پہلے مرحلے میں 3 ماہ کا کرایہ سندھ حکومت ادا کرے گی اور ان کی بحالی کے لئے ایک کمیٹی بنا کر ان کی بحالی کو یقینی بنایا جائے گا۔ سانحہ کے ذمہ داران کا تعین کرنے والی کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ مل گئی ہے اور حتمی رپورٹ رات تک مل جائے گی اور جو بھی اس میں ملوث ہوگا چاہے وہ سرکاری ہو یا پرائیویٹ شخص اس کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کرایا جارہا ہے۔ شہر میں جہاں مخدوش عمارتوں کا سروے مکمل کرکے ان کے یونٹس کی تفصیلات جمع کرلی گئی ہیں وہاں اب غیر قانونی تعمیر ہونے والی عمارتوں کا سروے تیزی سے مکمل کیا جارہا ہے اور جلد ہی ان تمام عمارتوں کے خلاف بھی سخت ایکشن ہوتا نظر آئے گا۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ٹائونز کے چیئرمینز سے ملاقات کے دوران کسی سیاسی نہیں بلکہ شہر اور شہریوں کی فلاح و بہبود اور ٹائونز و یوسیز کو درپیش مسائل اور ان کے اشیوز پر تفصیلی بات ہوئی ہے اور یہ طے پایہ ہے کہ ان تمام مسائل اور اشیوز کو مل جل کر حل کرلیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز جماعت اسلامی کے نائب امیر کراچی اور سٹی کونسل میں قائد حزب اختلاف سیف الدین ایڈوکیٹ کی سربراہی میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ٹائونز کے چیئرمینز کے ساتھ اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
اجلاس میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری لوکل گورنمنٹ سندھ وسیم شمشاد، اسپیشل سیکرٹری لوکل گورنمنٹ بخش علی مہر، ایڈیشنل سیکریٹری کنول بھٹو، و دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ اجلاس میں شہر میں غیر قانونی تعمیرات، کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے تحت پانی اور سیوریج کے حوالے سے درپیش مشکلات، سندھ سالڈ ویسٹ سمیت دیگر کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا جارہا ہے۔
بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے صوبائی وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ جماعت اسلامی کے ٹاؤنز چیئرمینز کی جانب سے وزیر اعلٰی سندھ سے ملاقات کے لئے کہا گیا تھا تاہم وزیر اعلٰی سندھ کی مصروفیات کے باعث انہوں نے مجھے اس اجلاس میں بھیجا اور ان کے مسائل سننے کی ہدایات بھی کی۔ سعید غنی نے کہا کہ اجلاس میں شہر کے مسائل پر تفصیلی طور پر بات چیت کی گئی، مختلف اداروں کے حوالے سے ٹاون چئیرمین کو درپیش مسائل پر بات ہوئی اور اس حوالے سے جماعت اسلامی کی طرف سے کئی مثبت تجاویز دی گئی ہیں، جس پر عمل سے شہریوں کو ریلیف ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں لیاری میں گذشتہ روز گرنے والی عمارت پر بھی بات ہوئی اور میں نے اس حوالے سے اب تک سندھ حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات، مخدوش عمارتوں کو گرانے اور غیر قانونی تعمیرات کی روک تھام سمیت دیگر کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات اور قانون سازی کے حوالے سے تفصیلی طور پر انہیں آگاہ کیا ہے۔ اس سانحہ کے بعد کمیشنر کراچی کی سربراہی میں سندھ حکومت کی کیمٹی بنائی گئی تھی اس نے وزیر اعلٰی سندھ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں ابتدائی ایک رپورٹ پیش کی ہے۔ مذکورہ کمیٹی نے اس علاقہ اور متاثرہ عمارت کا بھی دورہ کیا اور ایک ایسی بات سامنے آئی ہے، جس نے ہم سب کو حیران کردیا ہے۔ جس وقت یہ سانحہ پیش آیا اس وقت ہمیں جو ابتدائی معلومات اس بلڈنگ کے حوالے سے فراہم کی گئی تھی کہ اس کا پلاٹ نمبر 129/LY-19 بتایا گیا تھا لیکن مذکورہ کمیٹی نے جب جاکر اس جگہ کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس عمارت کا پلاٹ نمبر یہ نہیں بلکہ 136/LY-18 ہے اور مذکورہ عمارت بھی مخدوش تھی لیکن یہ عمارت جو آج سے کوئی 40 سے 50 سال قبل تعمیر ہوئی تھی وہ بھی ایس بی سی اے سے منطور شدہ نہ ہونے کے باعث اس کا کوئی ریکارڈ وہاں موجود ہی نہیں تھا۔ جبکہ جس پلاٹ نمبر کا پہلے دن ہمیں ابتدائی رپورٹ میں ذکر کیا گیا تھا اور جو میڈیا پر بھی چلتا رہا اور اس کو ایس بی سی اے کی جانب سے نوٹسز بھی جاری کئے گئے ہیں وہ عمارت بھی مخدوش ہے لیکن وہ ابھی وہاں موجود ہے اور اب اس کو بھی خالی کرالیا گیا ہے اور اس کے علاوہ جو جو عمارتیں مخدوش قرار دے دی گئی ہیں ان کو خالی کرانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ آج کے وزیر اعلی ہائوس میں اس کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ جن جن عمارتوں کو خالی کروا کر انہیں توڑا جارہا ہے، ان کے رہائشیوں کو متبادل کے طور پر پہلے 3 ماہ تک کا کرایہ سندھ حکومت ادا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ان عمارتوں میں جو کرایہ دار ہوں گے ان کو بھی 3 ماہ کا کرایہ سندھ حکومت ادا کرے گی بعد ازاں صرف ان گھرانوں کو ضرورت پڑنے پر اور ان کی مکمل بحالی کا فیصلہ ہونے تک 6 ماہ یا ایک سال تک بھی کردیا جائے گا۔
صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ ان متاثرین کی بحالی کے لئے ایک کمیٹی میری سربراہی میں بنائی گئی ہے، جس میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری لوکل گورنمنٹ، ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، آباد، پاکستان انجنئیرنگ کونسل اور ٹی ٹیک کے نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے۔ مذکورہ کمیٹی ایسی عمارتوں کے متاثرین جو فلیٹس کے مالکان ہوں گے ان کی بحالی کے لئے اپنی تجاویز اور سفارشات مرتب کرکے سندھ حکومت کو دے گی تاکہ ان کی مستقل بحالی کو یقینی بنایا جاسکے۔ مذکورہ گرنے والی عمارت اور دیگر 54 عمارتیں جو انتہائی مخدوش قرار دی جاچکی ہیں ان کو گرانے کا عمل تیزی سے شروع کردیا گیا ہے اور ان عمارتوں کو خالی کروایا جارہا ہے تاکہ خدانخواستہ کوئی دوسرا بڑا حادثہ رونما نہ ہو اور ان عمارتوں کے تمام یونٹس کا ڈیٹا بھی مرتب کرلیا گیا ہے تاکہ وہاں کے متاثرین کو فوری طور پر دوسرے کرایہ کی جگہ پر منتقل کردیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ کمیٹی میں جہاں سرکاری افسران اور محکموں کے افسران کو شامل کیا گیا ہے وہاں پرائیویٹ ممبران کو بھی شامل کیا گیا ہے جو حکومت کو ان کی بحالی کے لئے گائیڈ لائن دے سکیں۔ شہر میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف بھی کارروائی شروع کی جارہی ہے۔ ان عمارتوں کا نمبرز زیادہ ہوسکتا ہے اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان عمارتوں کو توڑنے کے لئے ایس بی سی اے کے پاس شاید اتنے وسائل نہ ہوں اس لئے اس میں ڈی سیز اور متعلقہ ٹائونز کی مدد بھی لی جائے گی اور اس سلسلے میں آج جماعت اسلامی کے ٹاؤنز چیئرمینز سے بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا گیا ہے۔ میں ایک بار ان تمام شہریوں سے اپیل کرتا ہوں جو ان مخدوش عمارتوں میں رہائش پذیر ہیں کہ ان کے گھروں سے زیادہ ان کئ جانیں عزیر ہیں۔ وہ انتظامیہ سے تعاون کریں ہم ان کی مدد کریں گے اور ان کے لئے لانگ ٹرم اقدامات کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ اس سانحہ کے ذمہ داران کا تعین آج رات تک مذکورہ کمیٹی کی فائنل رپورٹ میں کردیا جائے گا اور اس میں جو بھی سرکاری یا پرائیویٹ شخص ملوث ہوا اس کے خلاف آج ہی ایف آئی آر کا اندراج کرایا جائے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خطرناک تمام عمارتوں کا ڈیٹا جو ایس بی سی اے سے منظورشدہ ہیں ان کو جمع کرلیا گیا ہے اور اب ان عمارتوں کا بھی تیزی سے سروے کیا جارہا ہے جو مخدوش ہیں لیکن وہ ایس بی سے اے کے ریکارڈ میں نہیں ہیں تاکہ ان کو بھی خالی کروایا جاسکے۔
سعید غنی نے کہا کہ ایسی عمارتیں ایک یا دو دن میں تو نہیں توڑی جاسکے گی، جو خو عمارت ٹوٹتی جائے گی ان کے متاثرین کو کمیشنر کراچی کے تحت کرایہ ادا کیا جاتا رہے گا تاکہ وہ اپنا بندوبست کرلیں۔ جماعت اسلامی سے ملاقات میں سیاسی اشیو پر کوئی بات چیت پر انہوں نے کہا کہ دونوں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے نظریات رکھتی ہیں لیکن آج کے اجلاس میں کسی سیاسی اشیو پر نہیں بلکہ خالصتا عوامی شہر اور شہریوں کے مسائل اور ان کے حل پر بات چیت ہوئی ہے۔
روڈ کٹنگ کی مد میں ٹائونز کے پاس 11 ارب سے زائد کی رقم کے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت روڈ کٹینگ کی اجازت دینے کا اختیار ٹائونز کے پاس ہے اور اس کا جو بھی پیسہ ملتا ہے اس کو صرف اور صرف ان روڈ کٹینگ کے بعد ان سڑکوں پر بنانے پر ہی خرچ کیا جاسکتا ہے۔ایس ایس جی سی کی جانب سے شہر میں جو کام جاری ہے وہ ایک یا دو دن کا نہیں 3 سے 4 ماہ میں ہونا ہے اور جب ان کا کام۔مکمل ہوگا تو یہ تمام پیسہ ٹائونز ان سڑکوں کی تعمیر پر ہی خرچ کرے گی اور یہ پیسہ ان کے پاس علیحدہ اکائونٹ میں موجود ہیں۔ سانحہ بغدادی لیاری کی عمارت میں لواحقین کو فی کسی 10 لاکھ روپے معاوضے کی ادائیگی کا کام بھی شروع کیا جارہا ہے۔ جبکہ غیر قانونی عمارتوں کی تعمیرات کے خلاف قانون سازی کے لئے بھی ایک کمیٹی میری اور وزیر قانون کی سربراہی میں بنائی گئی ہے، جو پہلے سے موجود ڈرافٹ اور دیگر تجاویز پر جلد ہی کام۔مکمل کرکے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرکے قانون سازی کرے گی۔
اس موقع پر اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ وزیر بلديات سندھ سعید غنی سے آج کی جماعت اسلامی کے ٹائونز چیئرمینز کے ساتھ ملاقات میں کراچی کے بے شمار مسائل پر گفتگو کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے جتنے بھی مطالبات تھے وہ سیاسی نہیں بلکہ واقعی شہری مسائل پر بات کی گئی۔ غیر قانونی تعمیرات، واٹر اینڈ سیوریج، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سمیت دیگر مسائل اور اشیوز پر تفصیلی طور پر صوبائی وزیر کو آگاہ کیا گیا اور انہیں سالانہ ترقیاتی اسکیموں سمیت دیگر منصوبوں کے حوالے سے تجاویز دی گئ۔ سیف الدین ایڈوکیٹ نے کہا۔کہ جماعت اسلامی کا مقصد شہر کی بھلائی ہے؛ ہمارا ایجنڈے میں سب سے پہلی چیز غیر قانونی تعمیرات کا ہے۔ غیر قانونی عمارتیں گرانے کی بات کی جارہی ہیں تو دوسری جانب جہاں غیر قانونی تعمیرات کی جارہی ہیں انہیں روکا جائے۔ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ جن عمارتوں کو گرایا جارہا ہے انہیں 6 ماہ کا کرایہ ادا کیا جائے۔ جن بلڈنگ مالکان کی بلڈنگ گرائی جارہی ہے انہیں متبادل دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں صوبائی وزیر کو بتایا کہ واٹر بورڈ عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے رہا ہے، ٹاؤن اور یوسیز سیوریج اور پانی پر وسائل خرچ کررہے ہیں۔ اس لئے واٹر اینڈ سیوریج کے حوالے سے کوئی بھی منصوبے بنائے جائیں اس میں جماعت اسلامی کے ٹاؤن اور یوسیز چئیرمینز کو شامل کیا جائے۔
سیف الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہم نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ اے ڈی پی کی اسکیموں کو ٹاؤن و یوسی چیئرمین کو اعتماد میں لیا جائے۔ اس کے علاوہ کراچی کے بہت سارے ایشوز پر بات کی گئی ہیں۔ اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ آج کے اجلاس کے بعد ہر ماہ فالواپ اجلاس منعقد کیا جائے گا تاکہ شہریوں کو ریلیف دیا جاسکے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی شہر کے مسائل حل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں سے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔