آلو کی تاریخ اور عالمی سفر

تحریر/ عقیل اختر

دنیا کی تاریخ میں بعض اشیاء ایسی بھی ملتی ہیں جو بظاہر معمولی اور سادہ دکھائی دیتی ہیں، مگر ان کی کہانی تہذیبوں کے عروج و زوال، قوموں کی معیشت اور عوام کے دسترخوان سے ہوتی ہے۔ انہی میں سے ایک آلو ہے — جس کا نام آتے ہی ذہن میں سادہ، سستی اور عام سبزی کا خیال آتا ہے، مگر حقیقت میں اس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی اور حیران کن ہے۔


آغاز کہاں ہوا؟
آج جس آلو کی لذت سے دنیا کے بیشتر ممالک مستفید ہو رہے ہیں، اس کی پیدائش جنوبی امریکہ کے پہاڑی علاقوں، خاص طور پر پیرو اور بولیویا کے میدانوں میں ہوئی۔ آثار قدیمہ کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ آلو کی کاشت یہاں 7000 سے 10000 سال قبل کی جاتی تھی۔انکا تہذیب کے لوگ آلو کو نہ صرف اپنی خوراک کا بنیادی حصہ سمجھتے تھے بلکہ اسے دوا اور دیگر گھریلو استعمالات میں بھی شامل رکھتے۔ ان کے ہاں آلو کی کئی اقسام تھیں اور خشک آلو کو ”چونو” (Chuño) کہا جاتا تھا، جو سردیوں میں خوراک کے ذخیرے کے طور پر محفوظ کیا جاتاتھا۔
دنیا بھر میں آلو کا سفر
آلو کی دنیا بھر میں پہچان تب ہوئی جب 16ویں صدی میں ہسپانوی فاتحین جنوبی امریکہ کی سرزمین پر پہنچے۔ انہوں نے اس نئی سبزی کو یورپ میں متعارف کروایا، جہاں ابتدا میں اسے شبہے اور حیرانی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔1570 ء کے بعد آلو یورپ کی زمین پر اگایا جانے لگا، لیکن اس کے مقبول ہونے میں وقت لگا۔ بالخصوص آئرلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ میں یہ عوامی خوراک بن گئی۔ آئرلینڈ میں تو آلو اتنا مقبول ہوا کہ 19ویں صدی میں قحط کے دوران اس کی قلت نے لاکھوں افراد کی جان لے لی۔
برصغیر پاک و ہند میں آمد
آلو کی آمد برصغیر پاک و ہند میں بھی دلچسپ رہی۔ مورخین کے مطابق اسے 17ویں صدی کے آخر یا 18ویں صدی کے اوائل میں انگریزوں نے متعارف کروایا۔ ابتدا میں اسے امراء کے باغات کی زینت سمجھا جاتا تھا، لیکن بعدازاں اس کی سادگی، سستی اور ذائقے نے ہر طبقے کے دسترخوان پرجگہ بنائی۔
آج کا آلو
آج آلو دنیا کی ہر قوم، ہر ملک اور ہر علاقے کی خوراک کا حصہ ہے۔ یہ نہ صرف سبزی، بلکہ چپس، فرائز، اسنیکس، حلوہ، سموسہ اور دیگر پکوانوں کی جان ہے۔ پاکستان میں بھی یہ سب سے زیادہ پیدا ہونے والی اور کھائی جانے والی سبزیوں میں شامل ہے۔
حرفِ آخر
یوں تو آلو کو ہم سادہ اور معمولی سبزی سمجھتے ہیں، مگر اس کا سفر انسان کی ہزاروں سال پرانی تاریخ، تہذیب، معیشت اور خوراک سے جڑا ہے۔ آج بھی آلو، چاہے کسی بچے کے ہاتھ میں گرم فرائز کی صورت ہو یا کسی دیہات کی دیگ میں دم والے آلو گوشت کی شکل میں۔ ہر جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔زندگی کی خوبصورتی بھی شاید اسی میں ہے کہ ہم معمولی چیزوں میں بھی تاریخ کے گہرے رنگ تلاش کریں۔

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں