نگران حکومت کے پاس لوگوں کو ملازمت دینے کا اختیار نہیں ہے، مطلب کہ کسی بھی محکمے میں لوگوں کو ملازمت دینے کا کام قانون کے مطابق ان کے لیے گناہ تصور کیا جائے گا۔ ان کے سامنے عوام نے کے الکیٹرک حیسکو، سیپکو سمیت تمام بجلی کمپنیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کا بل 60 گز کے گھر کو بھی 60 ہزار کا دیا جا رہا ہے لیکن نگران حکومت کے پاس اس مسئلے کو حل کرنے کا اختیار نہیں، وہ مسئلے کا کوئی حل تلاش نہ کر سکے، آخر کار انہوں نے جا کر آئی ایم ایف سے اجازت لینے کی باقاعدہ درخواست دی، لیکن آئی ایم ایف نے انکار کردیا اور ایسا محسوس ہوا جیسے کے یہ نگران آئی ایم ایف کے ملازم ہیں اور آئی ایم ایف اس ملک، کا مالک ہے۔
حکمران آئی ایم ایف سے پرزور درخواست کر رہے ہیں کے عوام کو رلیف دینے کے لیے کوئی حل نکالیں،آئی ایم ایف کے سامنے یہ ایسے بیوس ہیں تو سدھا کیوں نہیں بتا رہے ہیں کے ان کے ھاتھ میں کچھ بھی نہیں، سیدھا بتایا جائے کے حالات ایسے ہیں, تو عوام جائیں اور آئی ایم ایف کے دفتر کے سامنے دھرنا دیں اور ان کے سامنے اپنا حال بیان کریں۔ ہو سکتا ہے پھر آئی ایم ایف کو پاکستانی عوام پر کوئی ترس آجائے؟ پر نگران سرکار لوگوں کو براہ راست بتا دیں کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا، نہ ہی
مسئلے کا حل ہے۔
حکومت کو کس چیز کی نگرانی کرنی ہے؟ ملک میں اب کیا رہ گیا ہے جو اس کی نگرانی کریں گے؟ براہ راست بتا دیا جائے کہ نگران حکومت عوام کو پریشانی دینے کے لیے لائی گئی ہے، پیٹرول کی قیمت میں تیسری بار اضافے کے بعد پیٹرول کی قیمت ٹرپل سنچری سے اوپر ہوگئی ہے، ملک کا کوئی سرکاری ماہر معاشیات قوم کو دلائل کے ساتھ بتائیں کیا وجوہات ہیں کہ ملک میں پٹرول کی قیمت میں تین بار مسلسل اضافہ ہوا؟ آرمی چیف کے افغانستان میں ڈالر اسمگلنگ کے خلاف ایکشن لینے کے بعد ڈالر بیس تیس روپے سے نیچے آگیا، پیٹرول اوپر کیسے گیا؟
پاکستان جہاں سے بھی پیٹرول خریدتا ہے وہاں ڈالر دیتا ہے، ڈالر کی قیمت جتنی کم ہوئی ہے، پیٹرول کی قیمت اتنی ہی بڑھائی گئی جو حیران و پریشان کن عمل ہے، ویسے تو 26 روپے پیٹرول کی قیمت کم کرنی تھی مگر انہوں نے اتنی قیمت بڑھا دی ہے، یعنی پیٹرول 26 روپے سستا ہونا چاہیے تھا، لیکن 26 روپے مہنگا ہوگیا، یعنی ایک جھٹکے میں پیٹرول 52 روپے مہنگا ہوگیا، ڈالر سوا تین سو روپے سے نیچے آ کر 297 تک پہنچ گیا۔ پیٹرول 305 روپے سے بڑھ کر 331 روپے تک پہنچ گیا ہے۔
ایک وقت ایسا بھی تھا جب پیٹرول کی قیمت دو روپے بڑھتی تھی تب 15 دن کے بعد ڈیڑھ روپے کم ہو جاتی تھی، لیکن اب تو تین مرتبھ مسلسل پیٹرول کی قیمت بڑھائی جا رھی ہے وہ بھی بیس سے 26 روپے تک، یہ جو ھر 15وہں دن پیٹرول کی قیمتیں بڑھا رہے ہیں کیا یہ ھر 15وہں دن سرکاری اور نجی ملازمیں کی تنخواہیں بڑھائیں گے؟ کے وہ اس مہنگائی کا سامنا کر پائیں؟ کیا بیس ھزار تنخواہ پر نگران وزیراعظم اپنا گھر چلا پائیں گے وہ تو کیا ان کے گھر کا نوکر بھی اس تنخواہ پر گھر نہیں چلا پائے گا، کتنا عجیب لگ رہا ہے جن کی تنخوائیں لاکھوں روپے میں ہیں وہ پیٹرول کی قیمتیں طئے کر رہے ہیں ، جن کو خود کو مفت میں پیٹرول مل رہا ہو۔
نگران سرکار اگر نوکریوں کی بارش لگا دے تو پتا ہے کیا ہوگا؟ الیکشن کمیشن بھی نوٹس لے گا تو عدلیا بھی نوٹس لے گی کے یہ سب نگران سرکار کے اختیارات میں نہیں ہے لیکن عوام کو مہنگائی کے دلدل میں پھسانے کا کوئی بھی ادارا نوٹس لینے کو تیار نہیں ہے،آخر کار عوام جائے تو کہاں جائے؟ ہر بار پیٹرول قیمتیں عدلیا میں چیلنج ہوتی ہیں پر کچھ نہیں ہو رہا یے۔
اب تو عوام سڑکوں پر آنے کی بھی قابل نہیں رہی،جو اپنا رزق چھوڑ کر اگر احتجاج کے لیے نکلیں گے ان کے پاس پھر شام کو واپسی پر اتنے پیسے بھی نہیں ہوں گے کے وہ آدھا کلو آٹا بوکھے بچوں کے لیے لے سکیں، عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے پر پیٹرول اور تمام چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں لیکن ڈالر سستا ہوا تو پیٹرول مہنگا کیسے ہوا؟ حکومت لوٹ مار کے چکر میں ہے، ایک طرف عوام ڈاکوؤں سے لٹ رہی ہے اور دوسری طرف یہ سرکاری لوٹ مار، غربت کے مارے ان لوگوں کے پاس آخر راستہ کیا بچا ہے؟
عوام کے پاس اگر کوئی راستہ بچا ہے تو وہ دو راستے یہ ہیں کے ایک خودکشی ، دوسرا ڈکیتی کی جانب بڑھنا، یعنی لوٹ مار، اس کی وجہ ہر روز بدامنی میں اضافہ ہوگا ، بلکہ ہو چکا ہے، اگر وہ کسی پولیس والے کا نشانہ بن جائیں یا کسی شھری کی گولی کا نشانہ تو دونوں طرف سے اس عوام کا ہی نقصان ہو رہا ہے، پولیس والے کو ڈاکو کی گولی لگے بھی عوام کا نقصان، کیوں کے یہ بھی ہم عوام سے ہی ہیں، بیروزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر ڈاکا لگانے والا ہلاک ہو جائے بھی کس کا نقصان؟ یا پھر مزاحمت پر ان کے ہاتھوں کوئی عام آدمی جاں بحق ہو جائے بھی عوام کا نقصان، اور اس حالات سے تنگ آکر کوئی کودکشی بھی کر لے تو عوام کا نقصان، ان سب واقعات سے کوئی عورت بیواہ ہوجائے گی، کوئی بچا یتیم ہو جائے گا، کوئی ماں بے سہارا بن جائے گی،اور ایسا ہو رہا ہے، یہ بہت بڑا سانحہ ہے جو ختم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ پتہ نہیں اس ملک اور عوام کا کیا بنے گا؟ حکمرانوں کا کیا جائے گا؟ ان کے اثاثے اور بڑھتے جائیں گے اور یہ عوام غربت کے دلدل میں ڈوبتی جائے گی۔