کراچی میں ” کلچر اینڈ ہیرہٹیج آف سندھ”کانفرنس

سیدہ انمول عل

 13 مئی 2023 کو کراچی میں ایک کانفرنس منعقد کی گئ جس میں کافی طلباء اساتذہ اور آرکیالوجسٹس نے شرکت کی ۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا ” کلچر اینڈ ہیرہٹیج آف سندھ  ( کراچی ٹو جامشورو) ” اس کانفرنس میں کراچی سے لے کر بدین ،جامشورو کے ثقافتی ورثے پر نظر ڈالی گئی اور ہمارے ثقافتی عمارتوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو مد نظر رکھا گیا۔ اس پروگرام میں مختلف ماہرین نے اپنا اپنا کام بہترین انداز ميں  پیش کیا جن کے نام میں یہاں لکھنا چاہونگی ۔ (1) سر ذوالفقار علی کلھوڑو ۔(2) سر کلیم الله لاشاری (3) سرجوردن مارکنائر.میں  اینتھرو پولوجسٹ( سیدہ انمول علی) ان لوگوں کو تمام معلومات فراہم کرنا چاہونگی جو وہاں موجود نہیں تھے ۔ سندھ ثقافت کے لحاظ سے ہماری سوچ سے ذیادہ وسیع ہے لیکن حکومت کی سستی اور لا پرواہی نے سندھ کو غریب رکھا ہے ۔کراچی، بدین سے لے کر جامشورو تک بے شمار خزانے موجود ہیں جن پر آج تک کام نہیں ہوا نا ہی کسی کو کرنے دیا گیا ہے۔ ان علاقوں میں   سے کچھ نام لکھنا چاہونگی جن کا ذکر کانفرنس میں ہوا۔

۔ (1) fatahi hillock .(2) Gujo graveyard (3) banbhore( half excavate ) (4)manghopir (5) miannaseermuhammag graveyard (6) 60 dome buildings painted walls   (7) jain temple (8) In water heritage (9) Gharo creek

( thumbanwari mosque) (10) Tomb of muhammadGhazna (11) Rattookot (12) Deh bail (13) murli hills ongar (14) mesolithic sites ( lithic industry) (15) paleolithic sites  ( kankar , landhi ,waghodar,Dehkankar ,Goth jalab (16) The city without name underwater۔

ان میں سے کچھ سائٹس ایسے تھے جن کے نام آرکیا لوجی کے اسٹوڈنٹس نے بھی نہیں سنے ہونگے ۔یہ وہ تمام جگہ ہیں جنہیں کبھی اہم نہیں سمجھا گیا نا ہی توجہ کا مرکز بنایا گیا ۔ سندھ میں آج تک چند مقامات پر ہی ایکسکیویشن ہوئی ہیں وہ بھی ٹکڑوں میں.ان میں سے کچھ سائٹس ایسے تھے جن کے نام آرکیا لوجی کے اسٹوڈنٹس نے بھی نہیں سنے ہونگے ۔یہ وہ تمام جگہ ہیں جنہیں کبھی اہم نہیں سمجھا گیا نا ہی توجہ کا مرکز بنایا گیا ۔ سندھ میں آج تک چند مقامات پر ہی ایکسکیویشن ہوئی ہیں وہ بھی ٹکڑوں میں.

سا نہیں کی سندھ کے ارکیا لوجوسٹ نے بھی اسے نظر انداز  کیا ہو  ۔ کام کرنے والوں نے اپنے فرائض انجام دیئے ہیں لیکن مجودہ حکومت نے ہمیشہ لا پرواہی کا مظاہرہ کیا جسکا اثر ہماری ثقافت اور اکنامی پر نقصان دہ ثابت ہوا ہے اور اب تک ہورہا ہے ۔ مندرجہ زیل تصاویر اس

بات کا ثبوت ہے کہ کسطرح ماضی میں ٹیم کو کام۔کرنے سے روکا گیا.        ہے۔۔اس عمارت کو ٹیم نے گرنے کے بعد دوبارہ سے کھڑا کیا لیکن دوسرے دن سورج طلوع ہوتے ہی حکومت کے ٹھیکیداروں نے اسے توڑ ڈالا ۔ ٹیم کی خلاف ورزی کے نتیجے میں  ان پر قانونی کروائ کی اور ایف آئی آر کروادی۔

یہ تصویر ہے شیرازی کے دور کی ۔اس دور م میں بھی ہمارے ثقافتی

ورثے کو نوٹس بورڈ بنادیا گیا تھا ۔یہ ایک جرم ہے اورغیر قانونی حرکت ہے لیکن اس بات پر غور کرنے والے موجود ہی نہیں ہیں

اس کے علاوہ اگر بات کی جائے کہ کسطرح نظروں کے سامنے کھڑی ہوئ عمارتیں گری ہیں اور انہیں نظر انداز کیا گیا ہے تو یہ تصویر اس سنگ دلی کا منہ بولتا ثبوت ہے

 ۔ 2001 میں زلزلاتی حادثے کا شکارہوکر عمارت اپنی خوبصورتی کھو چکی تھی ۔ اس واقعے کے 5 سال بعد جب ٹیم نے 2006 میں دوبارہ اس عمارت کا دورہ کیا تو بہت افسوس کا سامنا تھا کہ 5 سالوں میں بھی اس عمارت کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا اور آج یہ ایک بوسیدہ ملبے کاڈھیر بن چکی ہے جسے ہمارے نصاب میں بھی جگہ نہیں دی گئی ہے. 

28جنوری 1881 کے بعد سے اب تک دوبارہ ان عمارتوں کو اور ثقافتی  ماضی کو نظر کرم سے نہیں نوازا گیا جسکانقصان یہ ہے کہ آج تک ہم نصاب میں پرانی معلومات کو ذہن نشین کر رہے ہیں   جو اس تیز اور ترقیاتی دور کے لئے ناکافی ہیں.

یہ سندھ ذمین دار ہوٹل اور کراچی یونیورسٹی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ گورنمنٹ نے چند روپوں کے لئے کروڑوں کا سودا منظور کیا ہے ۔کراچی یونیورسٹی کے وجود نے مورلی ہلز کو بہت نقصان دیا ہے ۔

زمینی ورثے کے ساتھ ہمیں سطح سمندر میں بھی مال ودولت موجود ہے قریب ہی سمندر سے ایک شہر دریافت ہوا تھا جس کا نام آج تک دریافت نہیں ہوسکا

غوروفکر کی بات یہ ہے کہ ہمیں صرف موہن جو دڑو کے جال میں پھنسا کر حکومت مزے کی نیند سورہی ہے اور ہم اس بات سے خوش ہیں کہ ہم بھی کبھی بادشاہت کے حقدار رہیں ہیں، ہم نے بھی کسی دور میں خوبصورت ماضی بنایا ہے ۔ حال کا کیا ؟ اور وہ ماضی بھی پورا نہیں دریافت ہوسکا آج تک ؟ کیوں ؟ صرف لاشعوری اور غفلت کی وجہ سے ۔ صرف اور صرف نصاب میں موہن جو دڑو اور ہڑپہ کی سیٹی پکڑا کر کہ اب اسے ساری ذندگی بجاتے رہو اور سنتے رہو  آج غربت کا یہ حال ہے کہ عوام جان دینے کو ترجیح دے رہی ہے ۔ ننگے بدن بچے گرم سڑکوں پر بدن جلا کر روٹی کی بھیک مانگ رہے ہیں اگر ان ہی عمارتوں کو ہمارے تعلیم یافتہ حکومت نے اہمیت دی ہوتی تو آج قوم ترقی یافتہ قوم ہوتی ۔آج ہم قرضے اور غربت کی لعنت سے پاک ہوتے۔ لیکن وقتی  دولت کو جمع کرنے کے لئے حکومت نے جو نادانی کی ہے اسکا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں ۔ اگر ملک میں سیاحی مقامات میں اضافہ ہوجائے تو یہاں” ٹورعزم ” سیاحت کو فروغ ملے گا ،ہماری اکنامکس پر بہترین اثر ہوگا اور ممالک سے تعلقات بحال ہونے کا بھی امکان ہے میری درخواست ہے کہ ان تمام سائٹس کا ذکر ہمارے نصاب میں شامل کیا جائے اور نوجوانوں کو تیار کیا جائے کہ وہ ترقی کریں کسی پرائیوٹ کمپنی کے روبورٹ  نہیہں بنے.

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں