ملائیشیا کو خودمختاری یعنی انگریز راج سے آزادی پاکستان سے بہت بعد 1957ءمیں ملی۔ لیکن اس وقت بھی ملائیشیا میں اتنی تعداد میں تعلیمی ادارے یعنی اسکول، کالج اور یونیورسٹیز موجود نہیں تھیں جتنے تعلیمی ادارے پاکستان میں دس سال قبل 1947ءمیں تھے۔ میری اس بات کا مطلب یہ ہے آج کے نوجوان ملائیشیا کے تعلیمی نظام سے متاثر ہیں (اور ہونا بھی چاہیے۔ کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیمی نظام درست رفتار سے آگے بڑھنے کی بجائے بہت پیچھے رہ گیا ہے) انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تعلیمی اداروں میں ہمارا ملک بہت زیادہ ترقی یافتہ تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملائیشیا جنگلوں کا ملک ہے۔ بقول یہاں کے لوگوں کے…. ملئی کون ہیں؟ جنگل ہی کے لوگ تو ہیں! لیکن دوستو! ایک بات ضرور ہے…. اس ملک کے لوگوں اور یہاں کی حکومتوں نے شروع ہی سے دو باتوں پر پوری توجہ دی۔ ایک تعلیم اور دوسرا پولیس ڈپارٹمنٹ! اس قدر کہ 1987ءمیں کوالالمپور میں کامن ویلتھ ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس ہوئی تو آخری دن انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ نے ملائیشیا کے ان دونوں اداروں کی تعریف کی تھی۔ ملائیشیا کی حکومت کو شروع ہی سے اس بات کی فکر رہی ہے۔
پاکستان میں میرین اکیڈمی 1963ءمیں قائم ہوئی۔ یہاں ملائیشیا میں اس سے قریباً انیس برس بعد 1982ءمیں قائم کی گئی۔ جس کے لیے مجھے بلوایا گیا تھا۔ میں نے سمندر میں جہاز چلانا چھوڑ کر کنارے کی اس تدریسی ملازمت کا آغاز کیا۔ بلکہ میں ان چند لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اس اکیڈمی کو شروع کیا۔ ملک کے نئے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کو شوق تھا کہ ان کے ملک کے نوجوان دوسرے ملکوں میں جاکر جہاز رانی اور جہاز سازی کی تعلیم حاصل کرنے کی بجائے اپنے ہی ملک میں حاصل کریں۔ انہیں وزیراعظم بنے ابھی ایک سال ہی ہوا تھا۔ یہ بات دیگر ہے کہ وہ 1981ءسے 2003ءتک بائیس برس ملک کے وزیراعظم رہے۔ اس تمام عرصے میرا ان کے ملک سے تعلق رہا۔ بلکہ اس سے بھی بارہ، تیرہ برس قبل 1968ءسے میرا واسطہ ملائیشیا سے رہا ہے جب میں جہاز پر یہاں آتا جاتا رہتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ مہاتیر محمد نے کئی بڑے اور اہم کام انجام دیے۔ جس پر انہیں مخالف پارٹی کی سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مخالفین کو یقین تھا، بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم جیسے فارنرز کو بھی یہی محسوس ہوتا تھا کہ مہاتیر بے وقوفی کررہے ہیں۔ ان کے اقدامات سے ملک کا خزانہ برباد ہو جائے گا۔ لیکن ہر معاملے میں مہاتیر محمد کو کامیابی نصیب ہوئی۔ ان کے قائم شدہ پراجیکٹس کے ذریعے ملک میں دولت کی آمد شروع ہو گئی۔ ان کے چند اہم منصوبے یہ تھے:
اپنے ملک میں ”پروٹان“ نامی کار تیار کرنے کا کارخانہ قائم کیا…. پینانگ جزیرے میں طویل ترین پل تعمیر کرایا۔ پیٹروناس ٹاورز نامی عمارت تعمیر کرائی…. مونوریل اور ٹراموں کا آغاز کیا…. مختلف یونیورسٹیاں اور بے شمار تعلیمی ادارے قائم کیے…. وغیرہ وغیرہ۔
ملائیشیا میں میرین اکیڈمی کے قیام کے لیے ہم نے سمندری نوکری کو چھوڑ کر یہاں کے تاریخی شہر ملاکا میں رہائش اختیار کی۔ مہاتیر کے ساتھ ان کی بیگم سیتی ہاشما کی دلی خواہش تھی کہ یہ ادارہ پھلے پھولے اور کامیابی سے ہمکنار ہو۔ میں دیکھتا تھا کہ ابتدائی برسوں میں دونوں میاں بیوی اکیڈمی کے ہر فنکشن میں شریک ہونے کے لیے خاص طور پر کوالالمپور سے ملاکا آتے تھے۔ وہ ہم جہازی کیپٹن اور چیف انجینئرز کے ساتھ انتہائی بے تکلفی کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ یہ آج سے کم و بیش تیس برس پہلے کی بات ہے۔ اس وقت تک دہشت گردی اور مار دھاڑ جیسے فیشن وجود میں نہیں آئے تھے۔ اس ملک میں تو بے حد امن امان تھا۔ 1990ءتک ریاست کے گورنر اور وزیراعلیٰ کے دفاتر کے دروازے کھلے رہتے تھے۔ انگریزوں کے دور کے یہ دفاتر شہر کے وسط میں واقع تھے۔ میرے پاس کوئی ہم وطن آتا تھا تو میں اسے ملاکا شہر کی سیر کرانے کے ساتھ ساتھ کبھی وزیراعلیٰ اور کبھی گورنر کے دفتر لے جاتا تھا۔ وہاں چائے پی جاتی تھی۔ میرے ملک کے لوگوں کے لیے یہاں کا ماحول یکسر اجنبی تھا۔ وہ حیرت کا اظہار کرتے تھے کہ یہاں کا ایک عام آدمی پیشگی وقت لیے بغیر کسی وقت بھی آکر ریاست کے اعلیٰ افسران سے مل سکتا ہے۔ انہیں پولیس کا اعلیٰ افسر بھی ”سر“ کہہ کر مخاطب ہوتا ہے۔
یہ اس لیے ہے کہ یہاں کے افسر بجاطور پر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عوام کے نوکر ہیں۔ عوام کے دیے ہوئے ٹیکس سے انہیں تنخواہیں ملتی ہیں اور اس سے ان کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ جرم ہونے پر کسی کی بخشش ممکن نہیں۔ خواہ وہ ریاست کے سلطان کا سپوت ہو یا ملک کے بادشاہ کا برخوردار!
مہاتیر محمد کے علاوہ بعد میں منتخب ہونے والے وزیراعظم نجیب اور سابق احمد بداوی بھی جو اس وقت کھیل اور تعلیم کے وزیر تھے، ہماری اکیڈمی میں آتے رہتے تھے۔ وہ بھی بے تکلفی سے ملتے اور گفتگو کرتے تھے۔ ملئی زبان جاننے کے ناطے میں اکثر ان کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرتا تھا۔ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ انہیں طلبا کی تعلیم، صحت اور کھیلوں کی بہت فکر رہتی تھی۔ وزیراعظم نجیب صاحب خود بھی ہمارے ساتھ فٹ بال کھیلتے تھے۔ ان کے والد عبدالرزاق ملک کے دوسرے وزیراعظم تھے۔ لیکن مہاتیر محمد ساٹھ برس کے ہوتے ہوئے بھی انتہائی ذہین، قابل اور ان تھک کام کرنے والے تھے۔ یہاں ملائیشیا میں یہ مشہور ہے کہ وہ ملئی لوگ جن کے والد یا والدہ میں سے کوئی ایک چینی یا انڈین ہے تو وہ ذہین اور تیز ثابت ہوتے ہیں۔ مہاتیر محمد کے والد بھی انڈیا کے صوبے گجرات سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بچپن میں ملائیشیا کی ریاست کیداح میں آگئے تھے اور انہوں نے ایک ملئی خاتون سے شادی کی تھی۔ مہاتیر خود بھی اپنے وقت کے ذہین طالب علم رہے ہیں۔ وہ تعلیم میں تیز تھے اور اپنی قوم کے نوجوانوں کو بھی اپنے جیسا دیکھنا چاہتے تھے۔ خاص طور پر اس نئی اکیڈمی کے کیڈٹوں کو….! کیونکہ یہ اکیڈمی ان کے شوق کی وجہ سے قائم ہوئی تھی۔ یہاں تدریس کے لیے مختلف ملکوں سے تجربہ کار کیپٹن اور چیف انجینئرز کو لایا گیا تھا۔ ان لوگوں کا نہ صرف تعلیم میں بلکہ جہازرانی میں بھی ایک نام تھا۔ مہاتیر ہر وقت اس بات پر زور دیتے تھے کہ نہ صرف ٹیچر بہترین ہون بلکہ طلبا کا انتخاب بھی میرٹ پر ہونا چاہیے۔
ایک دن لنچ کے دوران گفتگو کرتے ہوئے مہاتیر نے خلاءمیں گھورتے ہوئے کہا ”معلوم نہیں ہم نے آغاز کیسا کیا ہے۔“
ان کا مطلب تھا کہ نہ جانے ٹیچرز کیسے ہیں۔ میں نے احترام سے کہا ”آپ ان کے سرٹیفکیٹ دیکھ کر اپنی تسلی کر سکتے ہیں۔“
”نہیں۔“ انہوں نے جواب دیا۔ پھر اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے ہم غیر ملکی جہازراں اساتذہ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولے ”اچھے ٹیچر کی اہلیت جانچنے کا پیمانہ یہ ہے کہ ان کے طالب علم امتحان میں کس قدر بہتر انداز سے نمبر لے کر پاس ہوتے ہیں۔“
انہیں اچھے موڈ میں دیکھ کر میں نے فوراً پوچھا ”سر! اچھے سیاستدان کی اہلیت جانچنے کا پیمانہ کیا ہے؟“
انہوں نے میری بات سن کر قہقہہ لگایا۔ ہمارے ملک کے لوگوں کو ضرور حیرت ہو گی کہ میں نے، ایک ٹیچر ہوتے ہوئے ملک کے وزیراعظم سے اس قسم کا سوال پوچھنے کی جرا ئت کیسے کی! میں نے یہاں ایک برس ملازمت کرنے اور اس سے قبل دس برس اس علاقے میں جہاز چلاتے رہنے کے دوران اس ملک کے مزاج کو خوب سمجھا ہے۔ یہاں کے سیاستدان، وزیر اور حاکم خود کو عوام کا خادم سمجھتے ہیں۔ ان میں وہ اکڑ اور تکبر نہیں جو ہم جیسے ملکوں میں عام ہے۔ دوسری بات یہ کہ ملائیشیا اور سنگاپور جیسے ملکوں میں ٹیچر کی بہت عزت و تکریم کی جاتی ہے۔ مہاتیر تو زیادہ ہی عزت کرتے تھے، کیونکہ ان کے والد صاحب بھی ٹیچر تھے۔
”سیاست دانوں کے جانچنے کا پیمانہ بتاﺅں؟“ مہاتیر محمد نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ضرور داتک!“ میں نے کہا۔ ان دنوں انہیں ”داتک“ کا خطاب ملا ہوا تھا۔ ہم انہیں ان کے نام سے مخاطب کرنے کی بجائے احتراماً داتک کہتے تھے۔ ”داتک“ ملئی زبان میں عزت کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے ”دادا۔“
مہاتیر محمد اپنی جیب سے ایک رنگٹ (یہاں کا ڈالر) کا نوٹ نکال کر اسے ہمارے سامنے لہراتے ہوئے بولے ”جب آپ دیکھیں کہ اس کی قدر گر رہی ہے تو سمجھ جایئے کہ میں ٹھیک طرح سے نوکری نہیں کررہا۔“
”دوستو! ان دنوں میں ملائیشیا کا رنگٹ ہمارے چھ روپے کے برابر تھا…. اس کی قدر گرنے کی بجائے بڑھی ہے۔ آج وہ 62.29 روپے کے برابر ہے۔ ان ایام میں ہمارے سو روپے کے عوض چار امریکن ڈالر ملتے تھے…. اور آج ہمارے تین سو روپے میں صرف ایک ڈالر ملتا ہے۔
مہاتیر صاحب کی پہلی بات بھی بالکل درست ہے۔ ملائیشیا میں محض ڈگری کو دیکھ کر ملازمت نہیں دی جاتی۔ خواہ وہ غیر ملکی ہو یا ان کا اپنا ہم وطن ہو۔ اس لیے ہمارے کئی لوگوں کو ملائیشیا (اور اس معاملے میں سنگاپور میں بھی) پڑھانا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ یہاں کسی طالب علم کے فیل ہونے یا اچھے نمبر حاصل نہ کرنے پر اسٹوڈنٹ کی نہیں بلکہ ٹیچر کی کھنچائی ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ پڑھانے والا اچھی طرح لیکچر تیار کر کے آتا ہے تاکہ طلبا دلچسپی سے سنیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ لیکچر کے دوران طلبا سے سوالات بھی کرتا رہے تاکہ وہ نہ صرف جسمانی طور پر کلاس روم میں حاضر رہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی۔ دوسری صورت میں طالب علم چیونٹے ہی گنتے رہیں گے اور فیل ہونے کی صورت میں ٹیچر کے لیے مصیبت کا سبب بنیں گے۔
لطیفہ مشہور ہے کہ ایک نااہل ٹیچر کو چیک کرنے کے لیے اسکول انسپکٹر کلاس روم میں آکر بیٹھ گیا۔ ٹیچر میتھس کا حساب بلیک بورڈ پر لکھنے کے ساتھ سمجھا بھی رہا تھا۔ آخر میں جواب تحریر کرنے سے قبل اس نے سوچا کہ سب سے آگے بیٹھے ہوئے طالب علم سے جواب پوچھا جائے جو بڑے انہماک سے بلیک بورڈ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ٹیچر کے خیال کے مطابق وہ طالب علم حساب کو بڑے غور سے سمجھ رہا ہے۔ اس کے درست جواب دینے پر انسپکٹر بھی امپریس ہو گا۔
”تم بتاﺅ، کیا جواب آئے گا؟“ ٹیچر نے پوچھا۔
”ستائیس۔“ طالب علم نے جواب دیا۔
”ہیں…. کیا کہا…. ستائیس؟“
”یس سر! ستائیس چیونٹے…. اب اٹھائیسواں چیونٹا سوراخ میں جائے گا۔“
دراصل وہ ماسٹر صاحب کے حساب کو غور سے دیکھنے کی بجائے بلیک بورڈ کے بالائی حصے میں بنے ہوئے سوراخ میں جانے والے چیونٹوں کو شمار کررہا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ عقل مند ٹیچر کو چاہیے کہ وہ طالب علم سے زیادہ پوچھ تاچھ نہ کرے۔ طالب علم جواب میں 27 کہے تو اسے چپ چاپ شاباشی دے کر 27 ہی لکھ دے۔ پیچھے بیٹھا ہوا انسپکٹر کہاں غور کررہا ہو گا کہ ماسٹر صاحب کونسا حساب کررہے ہیں اور اس کا جواب کیا ہو گا۔
لیکن بعض انسپکٹر بالکل گئے گزرے بھی نہیں ہوتے۔ ایک ایسے ہی کیس سے ملتی جلتی حالت میں ماسٹر صاحب نے جب طالب علم سے پوچھا کہ 15 اور 15 کتنے ہوئے تو طالب علم نے جواب دیا ”34۔“
”شاباش!“ ماسٹر صاحب نے کہا۔ ”ویری گڈ، بیٹھ جاﺅ۔“
انسپکٹر نے حیرت سے ماسٹر صاحب سے کہا ”آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ 15 اور 15 تو تیس ہوتے ہیں۔ آپ نے اس نالائق کو ڈانٹنے کی بجائے شاباشی دی ہے؟“
ٹیچر نے جواب دیا ”سر! شاباشی اس لیے دی ہے کہ یہ کل تک 15 اور 15 چالیس بتاتا رہا ہے۔ آج اس میں کافی بہتری آئی ہے۔خدا نے چاہا تو کل یہ 15 اور 15 تیس ہی بتائے گا۔“
لیکن جناب! کچھ طالب علم غضب کے حاضر جواب ہوتے ہیں۔ ٹیچر خواہ کیسا بھی سوال پوچھ لے وہ بالکل درست جواب دے دیتے ہیں۔ ایک خبطی ٹیچر نے طالب علم سے پوچھا ”میری قمیص کا کالر پندرہ انچ ہے اور میرا قد پانچ فٹ آٹھ انچ ہے۔ میں ناشتے میں روزانہ دو انڈے کھاتا ہوں اور میری گھڑی کی قیمت دو ہزار روپے ہے…. بتاﺅ میری عمر کیا ہو گی؟“
”چوالیس سال سر!“ طالب علم نے اعتماد سے جواب دیا۔
”شاباش!“ ٹیچر نے کہا۔ ”اچھا یہ بتاﺅ کہ تمہیں میری عمر کا بالکل درست اندازہ کس طرح ہوا؟“
”سر! میرا بھائی بائیس سال کا ہے اور وہ آدھا پاگل ہے۔ اس طرح مجھے اندازہ لگانے میں آسانی ہوئی کہ آپ یقینا 44 سال کے ہوں گے۔“